تحریر: ارشاد حسین ناصر
امریکہ ایک ایسا شیطان ہے، جس کی دوستی، اس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ اس پر اعتماد کرنے والے اس کا شکار ہوتے ہیں تو انہیں اس وقت احساس ہوتا ہے کہ غلطی ہوگئی، مگر ایسے وقت میں حالات ان کے قابو سے باہر ہوتے ہیں، بہت سی مثالوں سے یہ بات ثابت شدہ ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جس نے ہمیشہ امریکہ پر انحصار کیا ہے۔ ہماری حکومتوں، حکمرانوں، سیاستدانوں بلکہ ریاست نے امریکہ کو اپنا سرپرست، مددگار اور اقتدار کی کرسی پر بٹھانے والا بنا رکھا ہے۔ اسی اقتدار کی کشش اور کرسی کی خواہش کی وجہ سے امریکہ کو ہر قسم کا تعاون پیش کیا جاتا ہے۔ امریکہ سے وعدے کیے جاتے ہیں اور یقین دلایا جاتا ہے کہ ہم برسر اقتدار آکر آپ کی خدمت بہتر کرسکتے ہیں، حتی بعض نامور مذہبی و دینی قیادتوں کی طرف سے سے بھی اقتدار کے ایوان میں طاقت کے حصول کیلئے ایسی آفرز کی جاتی ہیں۔
ہمارے سیاست دانوں، چاہے ان کا تعلق حکمران جماعتوں سے ہو یا اپوزیشن پارٹیوں سے، ایسا ہی کرتے ہیں اور اس سب سے بڑھ کر ہمارے اعلیٰ دفاعی اداروں کے سربراہان و عہدیداران کے بارے میں بھی یہی تاثر عام ہے کہ انہیں اوپر لانے کیلئے واشنگٹن سے منظوری آتی ہے۔ اس عنوان پر مرحوم جنرل حمید گل کا ایک انٹرویو بھی موجود ہے، جس میں انہوں نے ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ یوں تو پاکستان میں امریکی اثر و رسوخ آزادی کے بعد سے شروع ہوگیا تھا۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ جب قیام پاکستان کی جدوجہد میں شامل بعض اعلیٰ شخصیات بالخصوص لیاقت علی خان نے امریکی کیمپ کو جوائن کرنا مناسب سمجھا، تب سے امریکہ پاکستان کے معاملات میں دخیل چلا آ رہا ہے۔ پاکستان میں فوجی آمریتوں کی ایک طویل تاریخ ہے، جنہیں ہمیشہ امریکی آشیر باد رہی۔
اس حوالے سے سب سے اہم دور وہ آتا ہے، جب جنرل ضیاء الحق نے ایک منتخب جمہوری وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تخت سے الگ کرکے کرسی اقتدار سنبھال لی تھی اور نوے روز میں انتخابات کروانے کا علان کیا تھا، مگر یہ نوے دن گیارہ برسوں پر محیط ہوگئے اور اقتدار سے منتخب جمہوری قیادت کو سونپنے کا معاملہ جنرل ضیاء کی ایک مشکوک حادثہ میں مارے جانے سے ہی ممکن ہوسکا۔ البتہ ہم اپنی ابتدائی بات کہ امریکہ پاکستان میں ہمیشہ صاحبان اقتدار کا سرپرست رہا ہے، حکومتوں کو لانا، تبدیل کرنا اور ہٹوانا اس کا پرانا کھیل رہا ہے۔ اس کیلئے وہ اپنے مہرے تیار کرتا ہے، جنہیں مناسب وقت پر سامنے لاتا ہے۔ جنرل ضیاء کا دور امریکی اثر و رسوخ اور خطے میں حالات کی تبدیلی کے عنوان سے بہت ہی دور رس اثرات کا حامل دور ہے، ایسے اثرات جن سے ہم آج تک نہیں نکل سکے۔
جنرل ضیاء کے دور میں ہی روس نے افغانستان میں مداخلت کی اور اپنی فوجوں کو اتارا۔ جس کے خلاف امریکہ نے بعض عرب ممالک کی ساتھ مل کر جنرل ضیاء اور ان کی ٹیم کے ذریعے جہاد کا اعلان کیا۔ یہ جہاد جسے سی آئی اے اور پینٹاگان کی سرپرستی میں شروع کیا گیا تھا، اس میں سعودیہ کی بھرپور مدد سے عرب نوجوانوں کو شامل کیا گیا۔ تمام عرب ممالک بشمول سعودیہ، یمن، لیبیا، مصر، اردن، عراق، شام، لبنان، الجزائر، تیونس، فلسطینی اور وسط ایشیائی ریاستوں کے جوان، بشمول چیچن، ترکستانی، ازبک، تاجک، اسلام کے نام پر، جہاد کے نام پر لڑان کیلئے لائے گئے۔ ان کیساتھ افغانستان کے مختلف لوگوں کو بھی جہادی جماعتوں کے عنوان سے منظم کیا گیا، جو زبان، نسل اور علاقے کی بنیاد پر پہلے سے تقسیم تھے، چونکہ افغانستان میں مختلف قومیتیں رہتی ہیں، جن کے اپنے اپنے اکثریتی علاقے ہیں، مگر اکثریتی قوم پختون ہونے کے باعث پاکستان میں لاکھوں مہاجرین کیساتھ پختون قائدین نے ڈیرے ڈال لیے۔ جنہیں ہمارے اداروں نے بھرپور مدد فراہم کی اور ان کی مکمل سرپرستی کی۔
روس کے خلاف لڑائی کے دوران پاکستان میں افغانستان کے لاکھوں مہاجرین کے ملک بھر میں بلا روک ٹوک آمد و رفت اور کاروباری معاملات تک توسیع ہوئی، جبکہ افغانستان کے قائدین کے مذہبی رجحانات اور دلچسپیوں کے باعث پاکستانی مذہبی جماعتوں اور تنظیموں نیز مدارس کے نیٹ ورکس نے بھی اپنی اپنی پسندیدہ شخصیات کے کیمپ جوائن کیے ہوئے تھے۔ ان کیمپوں میں پاکستانی نوجوانوں کو فوجی تربیت دی جاتی تھی اور انہیں روس اور اس کے حامی افغانوں سے لڑایا جاتا تھا۔ افغانستان میں روس کو روکنے کے نام پر افغانستان میں جنم لینے والے نام نہاد جہادی گروہوں کی برانچیں پاکستان بھر میں کھل چکی تھیں، جن میں نوجوانوں کی بھرتیاں ہوتیں اور انہیں بغیر کسی سکریننگ کے افغانستان میں بھیجا جاتا۔ انہی فوجی تربیت گاہوں میں القاعدہ نے جنم لیا، جس کی چھتری تلے بیسیوں اور جہادی گروہ چل رہے تھے۔ القاعدہ کا ایجنڈا عالمی جہاد تھا۔
اس میں شامل لیبیا کے جہادی اگر کسی بھی ملک میں کوئی کارروائی کرتے تھے تو اس کیساتھ ان کا اصل کام لیبیا میں حکومت کو جہاد کے ذریعے فتح کرنا تھا۔ ایسے ہی مصر، یمن، شام، عراق، اردن، حتی پاکستان میں بھی جہادی گروہوں کی حکومت لانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس عنوان سے تاریخ سے آشنا لوگ جانتے ہیں کہ کیسے ان جہادیوں نے برملا میاں نواز شریف کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت جو بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے تحت چل رہی تھی، کو ختم کرنے کیلئے پیسہ خرچ کیا، جبکہ افواج پاکستان میں اپنے گہرے تعلقات، روابط اور تبلیغ کی وجہ سے اثر و رسوخ پا لینے کے بعد بعض جرنیلوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کی سازشیں بھی سامنے آئیں، جنہیں ناکام بنایا گیا۔
یہی افغان پالیسی تھی، جس میں پاکستان نے گھاٹے کا سودا کیا اور آج تک اس کا گھاٹا برداشت کر رہا ہے۔ پاکستان نے افغانستان میں اپنی من پسند حکومت لانے کیلئے جنہیں پالا پوسا، وہی پاکستان کو ڈنگ مارتے رہے۔ افغانستان میں پاکستان کی آخری ترجیح طالبان تھے، جن کی سربراہی ایک مجہول کردار جسے ملا عمر کہا جاتا تھا، ظاہری طور پر بلا شک و شبہ اسی کا نام تھا، مگر ہر ایک جانتا ہے کہ پس پردہ کون تھا۔ اس پر بہت سی تحقیق والی تحریریں اور مضامین موجود ہیں کہ کیسے کابل کے تخت پر طالبان کو بٹھایا گیا تھا، کیسے طالبان افغانستان میں داخل ہوئے اور مختلف شہروں کو فتح کرتے چلے گئے۔ بغیر کسی مزاحمت کے انہیں تخت کابل پر بٹھایا گیا۔ یہ نوے کے عشرے کے درمیان کی بات ہے، تب کابل پر حزب وحدت جو ایک مضبوط شیعہ جماعت تھی، جس کی قیادت ایک مجاہد و مبارز عالم دین عبدالعلی مزاری کرر ہے تھے، واحد جماعت تھی، جس نے کابل کے مضافات اور شہر میں مزاحمت کی تھی۔ تب حزب وحدت افغانستان کے سربراہ سے مذاکرات کیے گئے، جن میں ان مذاکرات کے بہانے انہیں اسیر کر لیا گیا، ان کی توہین کی گئی اور انہیں شہید کر دیا گیا۔
اس کے بعد افغانستان کے شمالی علاقوں کی قیادتیں جن میں ازبک، تاجک، ہزارہ وغیرہ شامل تھے، پر قابو پانے کیلئے بمبارمنٹ کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ مزار شریف اور بامیان پر پاکستانی طیاروں کے ذریعے زمینی طالبان فورسز کو مدد فراہم کی جاتی تھی، یہ تب کی بات ہے، جب طالبان تخت کابل پر قابض ہوئے تھے۔ پاکستان بہت خوش تھا کہ اس نے اپنے من پسند لوگ کابل کے اقتدار پر بٹھا دیئے، اب یہ لمبی سرحد ناصرف محفوظ بلکہ پاکستان کی پشت پناہ بھی ہوگی۔ اسی دور میں مزار شریف میں طالبان نے ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کیا اور سٹاف ممبران کو شہید کیا، جبکہ بامیان میں اہل تشیع کا بڑی تعداد میں قتل عام کیا۔ سفاکیت و درندگی دکھاتے طالبان نے یہاں سے بہت سے خواتین اور کم سن بچیوں کو کنیزیں بنا کر ساتھ لے جانے کا گھناءونا کام بھی انجام دیا، جسے بعد ازاں داعش نے شام میں کاپی کیا تھا۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی یہ خام خیالی تھی کہ طالبان جنہیں چمن سے لیکر کابل کے تخت تک بٹھانے میں پورا زور لگایا گیا تھا، یہ ان کے ساتھ مخلص رہیں گے۔ یہ ایک تصور تھا، ایک خیال تھا، جو وہم ثابت ہوا۔ خواب وہ بھی بھیانک تعبیر والا خواب ثابت ہوا۔ آج جو صورت حالات ہے، سب کے سامنے ہے۔ طالبان کی حکومت نو گیارہ کے حملوں کے بعد، القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور اس کے گروہ کے خاتمہ کیلئے افغانستان پر امریکی حملہ اور اس کے بعد دنیا بھر میں ان القاعدہ کے مفروروں کی بھاگ دوڑ نیز کارروائیاں جن کی زد میں پاکستان بھی آیا۔ اسی القاعدہ کی کوکھ سے تحریک طالبان پاکستان نے جنم لیا اور اس نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ دہشت گردی کا ایسا طوفان آیا کہ اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اسی دہشت گردی کے طوفان اور جنرل ضیاء کی پالیسی کے باعث پاکستان کے گلی کوچوں کی مساجد تک نمازیوں کے خون سے رنگین ہوتی آرہی ہیں۔
کیا اسّی کے عشرے کے شروع میں امریکہ کیلئے جہاد کے نام پر بھرتی کیے جانے والے لوگوں نے ہی امریکہ کے کہنے اور مدد سے اس ملک کی بنیادوں کو ہلا کر نہیں رکھا۔؟ جنہیں ہمارے حکمرانوں اور امریکی مہروں نے اپنا سمجھا تھا، کیا وہ آج اپنے ہیں یا ان کو ہمارے دشمن چھتری فراہم کرچکے ہیں، جہاں وہ اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔؟ کیا موجودہ طالبان حکمرانوں کو قطر میں سیاسی دفتر میں بٹھا کر تیار نہیں کرتا رہا اور اپنے انخلا کے ڈرامے کیساتھ انہیں اپنے فوجی طیارے میں لا کر تخت ان کے حوالے نہیں کیا؟ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ابو محمد جولانی جو شام میں سارے ڈرامے کا اہم کردار ہے، اس پر امریکہ نے دس ملین ڈالر انعام رکھا ہوا ہے، وہ کیسے سی این این کو انٹرویوز دے رہا ہے؟ جبکہ ایسے ہی انعام والا خلیفہ سراج الدین حقانی افغانستان کا وزیر دفاع بنا ہوا ہے اور غیر ملکی دورے تک کرچکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کردار ہیں، جنہیں بھول گیا ہے کہ صدام کا انجام کیا ہوا تھا، رضا شاہ کیساتھ آخر میں کیا ہوا تھا، جنرل ضیاء کیسے حادثے کا شکار ہوا تھا۔