تحریر: ارشاد حسین ناصر
اس تحریر کے پہلے حصہ میں ہم نے فلسطینی مقاومت حماس، یمنی مقاومت کی استقامت و شجاعت و بہادری کے مقابل اسرائیل کی ناکامیوں کا تذکرہ کیا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ ایک عالمی عسکری طاقت کے مقابل بے دست و پا لوگ کیسے ان کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اسے کسی بھی طرح کامیابیاں سمیٹنے سے روکے ہوئے ہیں۔ اب مقاومت لبنان کو دیکھتے ہیں، سید مقاومت، سید العرب و العجم ابو ہادی سید حسن نصراللہ نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا تھا کہ حزب اللہ، سات اکتوبر طوفان الاقصیٰ کے اگلے دن یعنی آٹھ اکتوبر کو اس جنگ میں وارد ہوگئی تھی اور لبنان کے محاذ سے اسرائیل کو شدید نقصان پہنچانا شروع کر دیا تھا۔ اس کا مقصد دشمن کی طاقت کو یقینی طور پر تقسیم کرتے ہوئے کمزور کرنا تھا۔ یہ اسٹرٹیجی اب تک کامیاب رہی ہے۔ لبنان کا محاذ اس قدر نقصان دے رہا تھا کہ اسرائیل کو باقاعدہ لبنان پر جنگ مسلط کرنا پڑی ہے۔
یمن چونکہ دور ہے، وہاں فقط فضائی حملے ہوتے ہیں، اس لیے یمنیوں کیساتھ ایسا امکان نہیں کہ جنگ باقاعدہ طور پر شروع کریں۔ وہاں حملے کیے جاتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے، جبکہ لبنان کا محاذ چونکہ آٹھ اکتوبر سے مسلسل چوبیس گھنٹے اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کا توقف نہیں آیا، یہ محاذ ہر لمحہ بیدار اور تیار ہے، لبنان سے مقاومت نے اسرائیلی سرحدی پوائنٹس، چوکیوں، مراکز، جاسوسی کے ذرائع، آئرن ڈوم کی انسٹالیشنز اور فوجیوں کو بھی نقصان پہنچایا جبکہ اسرائیل کے اندر راکٹس اور جاسوسی ڈرونز کے ذریعے بھی بہت سی کاروائیاں کیں، جن کی باقاعدہ ویڈیوز ریلیز ہوتی ہیں۔ اسرائیل نے اس کے مقابل اپنے جدید ذرائع، پیسے کی ریل پیل اور دیگر ذرائع سے لبنانی مقاومت، عراقی مزاحمت، شام میں موجود مقاومتی گروہوں اور ایرانی فوجی مشیران کو ٹارگٹ کرنے کی پالیسی اپنائی۔
مقاومتی قائدین کو ٹارگٹ کرکے شہید کرنے کی پالیسی کا مقصد یقیناً لوگوں میں یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ ہم نے ان کو ختم کر دیا، اب ان کی قیادت کرنے والا کوئی نہیں، کسی حد تک اسرائیل اس میں بہ ظاہر کامیاب نظر آیا کہ اس نے بہت ہی اوپر کی سطح کے عسکری قائدین کو لبنان اور شام میں شہید کیا۔ اس سے بھی زیادہ اسرائیل نے اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے تہران میں مہمان حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ سابق وزیراعظم فلسطین جناب اسماعیل ہنیہ کو ایک بہت ہی پیچیدہ اور حیران کر دینے والے انداز میں شہید کیا۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے سانحہ سے ایران مخالف لابیز نے بھرپور پراپیگنڈہ شروع کیا، ایسا لگتا تھا کہ یہ لوگ بس انتظار میں بیٹھے تھے، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں ایک غلغلہ مچ گیا۔ ایران نے اس المناک سانحہ پر باقاعدہ طور پر اعلانیہ بدلہ لینے کا اعلان کیا اور کہا کہ وقت اور جگہ ہم منتخب کریں گے، مگر اسرائیل کو اس کا جواب دیا جائے گا۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد عراق اور ایران میں عالمی سطح پر اربعین کے اجتماع کے دن قریب تھے، اربعین میں دنیا بھر سے لوگ عراق کا رخ کرتے ہیں اور پاکستان و افغانستان سے بائی روڈ جانے والے ایران سے ہو کر عراق داخل ہوتے ہیں اور واپسی کا راستہ بھی یہی ہوتا ہے، اس لیے بلا شبہ لاکھوں لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ ہر سال ہوتا ہے، ایسے میں ایران سے یہی توقع اور امید تھی کہ وہ ان ایام میں غیر ملکی مہمانان و زائرین کو کسی ایسی حالت سے دوچار نہیں کرے گا، جو الگ سے ایک مسئلہ بن جائے، چونکہ اسرائیل جیسے سفاک غاصب سے کسی بھی قسم کی توقع اور امید رکھی جا سکتی ہے۔ بہرحال اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد بدلہ میں تاخیر ہوئی، مگر حزب اللہ لبنان اور حماس نے بہت سے آپریشنز کیے، انہی آپریشنز کی وجہ سے اسرائیل نے نئی چال چلی، ایک طرف لبنان میں مقیم مقاومت کی اعلیٰ قیادت کو بے رحمانہ حملوں میں شہید کیا تو دوسری طرف اپنی سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسا اقدام کیا، جس نے دنیا کو ہلا کے رکھ دیا۔
اسرائیل نے لبنان میں لوگوں اور مجاہدین کے زیر استعمال پیجرز کے ذریعے سترہ ستمبر کے دن بہت سے لوگوں کو شدید زخمی کر دیا۔ یاد رہے کہ پیجر ایک پرانی ٹیکنالوجی ہے، جو پیغام رسانی کا کام کرتا ہے اور عمومی طور پر یہ بیلٹ کیساتھ ہوتا ہے، پیغام آنے کی صورت میں ہاتھ میں پکڑ کر پیغام پڑھا جاتا ہے، اس لیے جب دھماکے کیے گئے تو اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں پھٹنے کے باعث لوگوں کے ہاتھ اور آنکھیں متاثر ہوئیں۔ بلا شبہ اس میں چند سو لوگ متاثر ہوئے، شدید زخمی ہونے والوں کی فوری مدد کیلئے ایرانی ہلال احمر کی میڈیکل ٹیمز فوری پہنچیں اور ممکنہ امدادی کی، مگر کام اس سے زیادہ خراب تھا، لہذا حکومت ایران نے لبنان سپیشل طیارہ بھیجا اور زیادہ زخمیوں کو لبنان سے ایران علاج کیلئے لائے۔ ادھر اسرائیل جیسے سفاک دشمن نے دنیا کی تنقید کہ پیجر میں بم لگانے اور پھاڑنے سے عام لوگ بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے، کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وارلیس اور فونز، حتی کہ بعض رپورٹس کے مطابق سولر پینلز کی بیٹریوں میں بھی دھماکے کیے۔
ایسے حملوں اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے اسرائیل نے اپنی برتری ثابت کی۔ عام لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہوا، جبکہ دوسری طرف آئی فونز، و یہ ساری چیزیں بنانے والی کمپنیوں سے لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا۔ لوگوں نے یہی سوچا ہوا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں موبائل، واکی ٹاکی اور الیکٹرانک اشیاء کے ذریعے تباہی لا جا سکتی ہے۔ ان پیجر، موبائل و واکی ٹاکی حملوں کیساتھ ساتھ اسرائیل نے لبنان و شام میں فضائی حملوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ شدید ترین حملوں میں حزب اللہ، شامی مقاومت، ایرانی کمانڈرز اور لبنان میں حماس کے بعض قائدین کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہا۔ یوں بہ ظاہر اسرائیل نے اپنی جارحیت سے مقاومت کو شدید ترین جھٹکے لگا کر دنیا پر اپنی برتری ثابت کرنا چاہی ہے۔ کیا اسرائیل اس مین کامیاب ہوا ہے اور مقاومت اسے کیسے جھٹکے لگا رہی ہے، اس کے وجود کو چاٹ رہی ہے۔
مقاومت کیا کچھ کرسکتی ہے، یہ الگ ہی موضوع ہے، ہم اس حصہ میں اسرائیل کی بدترین کارروائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حزب اللہ کے سینیئرز فوجی کمانڈرز اور ان کے بعد ضاحیہ جنوب پر ہونے والے بدترین حملے، بمبارمنٹ پر آتے ہیں کہ جس حملے میں امت مسلمہ، مقاومت اسلامی کے سرخیل، آزادی و حریت کا نام سید المقاومت سید حسن نصراللہ کے مفقود ہونے کا سانحہ رونما ہوا ہے، ان پر ہونے والے بدترین حملہ کی شدت کا اندازہ ابھی تک شاید کسی کو نہیں ہے، مگر جو تباہی تصاویر اور ویڈیوز میں نظر آرہی ہے اور سید مقاومت اور ان کے ساتھیوں کی شہادت جن کا ابھی تک کچھ اعلان نہیں ہوا کہ کون کون ساتھ شہید ہوا ہے، کون کس حالت میں ملا ہے، کچھ ملے ہیں، کچھ شاید ملے بھی نہ ہوں۔ اس المناک سانحہ نے دنیا بھر کو مغموم اور دکھ و غم میں مبتلا کر دیا جبکہ دوسری جانب اسرائیل کا حوصلہ اس قدر بڑھ گیا کہ اس نے ایران کو دھمکانا شروع کر دیا کہ اگلا نشانہ ایران ہے اور بہت ہی خطرناک حد تک اپنے منصوبوں کا اظہار کیا جانے لگا۔
سید المقاومت پر ہونے ولے حملے کے بعد حزب اللہ مسلسل مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے، حزب اللہ کا تنظیمی نیٹ ورک بہت مضبوط اور قوی ہے۔ حزب اللہ کی قائم مقام قیادت نائب سربراہ جناب شیخ نعیم قاسم نے سنبھال لی۔ دوسری طرف سید ہاشم صفی الدین کا نام بھی متبادل قیادت کے طور پر آیا، ان کے حوالے سے بھی بہت سی افواہیں پھیلائی جاتی رہی ہیں، جن کا سلسلہ اب بھی نہیں تھما، مگر جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسی دوران جمہوری اسلامی ایران نے اسرائیل پر تقریباً دو سو بیلسٹک میزایل برسا دیئے اور ان کے بہت اہم فوجی و جاسوسی مراکز کو شدید نقصان سے دوچار کیا ہے۔ اس کیساتھ ساتھ عراقی مقاومت بھی بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ عراقی مقاومت نے بھی اہم فوجی مراکز کو ڈرونز اور میزائلز کے ذریعے ٹارگٹس کو حاصل کیا ہے، جبکہ یمنی اپنا کام کر رہے ہیں، ان کے میزائل اگرچہ دو ہزار کلومیٹر کے قریب فاصلہ طے کرتے ہیں، مگر اسرائیل کے دفاع نظام کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔