تحریر: احمد کاظم زاده
اسلامی جمہوریہ ایران ڈپلومیسی اور سفارت کاری کے میدان میں بھی غاصب صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے اور اسی سلسلے میں ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کا دورہ کیا ہے۔ ریاض میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتخانے کے اعلامیہ کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ، اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے بدھ کے روز سعودی عرب کے لئے روانہ ہوئے۔ اس دورے میں وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اپنے سعودی ہم منصب فیصل بن فرحان کے ساتھ مختلف سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، سماجی سمیت مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو مضبوط اور فروغ دینے کے لیے تبادلہ خیال کیا۔
تہران میں طوفان الاقصیٰ کے موضوع پر ہونے والے اجلاس کے موقع پر عباس عراقچی نے ریاض اور بعض علاقائی دارالحکومتوں کے اپنے سفر کے بارے میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ لبنان پر وحشیانہ حملوں کو روکنے کے لیے ہماری کوششیں جاری رہیں گی اور ہم علاقائی اور اسلامی ممالک نیز عالمی برادری کے ساتھ ملکر جنگ بندی کے لئے اجتماعی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے بھی X چینل پر اپنے ایک پیغام میں لکھا ہے کہ "اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے سفارتی مشاورت اور خطے کے ممالک کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر اسرائیلی نسل کشی اور جارحیت کو روکنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ غزہ اور لبنان کے بھائیوں اور بہنوں کے مصائب کو کم کرنے کے لیے وزیر خارجہ ڈاکٹر عراقچی سعودی عرب روانہ ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ جمعہ اور ہفتہ کے دن، عباس عراقچی نے علاقے کے اپنے پہلے سرکاری دورے میں بیروت اور دمشق کا سفر کیا۔ وہ اس سے پہلے ایران کے صدر مسعود پزشکیان کے ساتھ دوحہ کے دورے پر بھی گئے تھے۔ ان ملاقاتوں میں عراقچی نے ایک بار پھر مزاحمت کے بلاک کے لیے ایران کی فیصلہ کن حمایت پر زور دیا ہے۔ عباس عراقچی نے اس کے علاوہ گذشتہ چند دنوں میں مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعطی سمیت دیگر علاقائی حکام کے ساتھ سفارتی سطح پر متعدد مشاورتیں انجام دیں، جن میں سب سے اہم لبنان اور غزہ پر صیہونی حملے کو روکنے کی سفارتی کوششیں تھیں۔ لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل "سید حسن نصراللہ" کی شہادت کے بعد ایران نے اسلامی تعاون تنظیم کا غیر معمولی اجلاس منعقد کرنے کی درخواست کی ہے اور حالیہ دورہ ریاض اس درخواست کی پیروی میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ سید حسن نصراللہ کے قتل کے بعد صیہونی حکومت کے مقاصد میں سے ایک لبنان میں داخلی جنگ اور اندرونی تنازعات کو ہوا دینا ہے، لہذا اس فتنہ سے نمٹنے میں سعودی عرب کا کردار اور ذمہ داری اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ ریاض لبنان کے عیسائی اور سنی حلقے میں کافی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ دوسری جانب غزہ پر حملہ کرکے صیہونی حکومت نے عملی طور پر فلسطینی ریاست کے منصوبے کو تباہ کرنے کی طرف قدم بڑھایا ہے، جو سعودی عرب کے موقف کے خلاف ہے، کیونکہ سعودی عرب فلسطینی ریاست کے منصوبے کا حامی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ بن فرحان نے "فنانشل ٹائمز" اخبار میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ محمد بن سلمان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سعودی عرب کی ترجیح فلسطینی ریاست کی تشکیل ہے۔
بہرحال صیہونی حکومت کی جارحیت اور توسیع پسندی محمد بن سلمان کے اقتصادی منصوبوں اور میگا پراجیکٹس کے لئے بھی ایک چیلنج ہے، کیونکہ ان منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے امن اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ بات سب پر عیاں ہے کہ صیہونی حکومت بالخصوص اس کے دائیں بازو کے انتہاء پسندوں نے اقتدار میں آکر خطے کو جنگ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ صیہونی انتہاء پسندوں کی یہ حرکتیں طوفان الاقصیٰ سے کافی پہلے شروع ہوچکی تھیں۔ ماہرین کے مطابق خطے کے موجودہ اور ہنگامہ خیز حالات میں فوجی سرگرمیوں کے علاوہ سفارتی سرگرمیاں بھی ضروری اور اہم ہیں اور یہ صیہونی حکومت کی توسیح پسندانہ سازشوں سے نمٹنے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی ایک اہم حکمت عملی بھی ہے۔
سعودی عرب کو خلیج فارس کے جنوبی ساحل کے مختلف عرب شیوخ کے گاڈ فادر کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ ملک خطے میں توانائی، تیل اور گیس برآمد کرنے والے اہم ممالک میں سے ایک ہے اور دوسری طرف اس کے امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ عباس عراقچی کا دورہ ریاض اور سعودی حکام کے ساتھ ان کی مشاورت کا فائدہ یہ ہے کہ ریاض ایران کے واضح موقف کو مغربی اور عرب ممالک کے کانوں تک پہنچا سکتا ہے۔ تہران کا اپنے پڑوسیوں بالخصوص خلیج فارس کے ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور توسیع کا معاملہ گذشتہ چند سالوں سے ایران کے سفارتی ایجنڈے میں شامل ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ایران کی اس سفارتکاری سے خطے میں کشیدگی اور عدم استحکام میں کمی ہوگی۔