تحریر: اتوسا دیناریان
مغربی ممالک کے تمام تر دعووں کے باوجود غزہ کے خلاف جنگ میں غاصب صیہونی حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت کا سلسلہ جاری ہے اور عملی طور پر یہ ممالک اب بھی اسرائیل کی مسلسل حمایت کر رہے ہیں اور اسے فلسطینیوں و لبنانی عوام کے خلاف حالیہ جنگ میں ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے حال ہی میں برطانوی وزیراعظم کیر اسٹارمر نے صیہونی حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی کی درخواستوں کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ غزہ جنگ کے آغاز سے ہی صیہونی حکومت نے غزہ پٹی میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف قتل عام کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ غزہ اور مغربی کنارے میں تقریباً ایک سال میں 41 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور لاکھوں زخمی ہوچکے ہیں۔ اس صیہونی حکومت نے نہ صرف تمام گزرگاہوں کو بند کرنے کے علاوہ امدادی سامان اور امدادی کارکنوں کی آمد کو روک رکھا ہے بلکہ اسپتالوں اور تعلیمی مراکز کو نشانہ بنا کر نسل کشی کے عمل کو عملی جامہ پہنا رہی ہے۔
فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جرائم کی گہرائی اس قدر زیادہ ہے کہ حالیہ مہینوں میں اسرائیل کے کئی حامی ممالک نے اس نسل کشی پر احتجاج کیا ہے۔ اس حوالے سے کئی یورپی ممالک میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئی ہیں اور شہریوں نے اپنی حکومتوں سے اسرائیل کو دی جانے والی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بہرحال اس دباؤ کی وجہ سے بعض یورپی حکام نے رائے عامہ کے دباؤ میں آکر صیہونی حکومت سے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی اور مذاکرات کو قبول کرکے غزہ کے عوام کا قتل عام بند کرے۔ ناروے کے وزیر خارجہ Espenbart Idi "اسپن بارت ایدی" نے اس تناظر میں غزہ پٹی، مغربی کنارے اور لبنان کے عوام کے مصائب کو ناقابل تصور قرار دیتے ہوئے جنگ بندی کے قیام، بین الاقوامی قوانین کی پاسداری اور دو ریاستی حل کے لیے بات چیت پر زور دیا ہے۔
اسی طرح بعض دیگر یورپی ممالک نے بھی اسرائیل کے جرائم کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے اور صیہونی حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم ان تمام مطالبوں اور دباؤ کے باوجود عملی طور پر کچھ نہیں ہوا اور یورپیوں نے منافقانہ موقف اختیار کرتے ہوئے اسرائیل کی نہ صرف حمایت جاری رکھی ہوئی ہے بلکہ اسے ہتھیار فروخت کرنے اور مالی امداد دینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ اس تناظر میں برطانیہ ان ممالک میں سے ایک ہے، جو فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی ہر طرح کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کی رکن "زارا سلطانہ" نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ فلسطین کی آزادی کے لیے اتنی بلند آوازیں کبھی نہیں سامنے آئی تھیں، لیکن اس کے باوجود برطانوی حکومت صیہونی حکومت کے لیے برطانوی برآمدات کو جاری رکھے ہوئے ہے اور اسرائیل کو دھماکہ خیز آلات، مشین گنیں اور امریکی لڑاکا طیارے ایف پینتیس کے پارٹس سپلائی کر رہی ہے۔
"اینٹی آرمز ٹریڈ کمپین انسٹی ٹیوٹ" کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ کے پاس F-35 لڑاکا طیاروں کے کم از کم 15 فیصد پرزہ جات موجود ہیں، جو وہ اسرائیل کو سپلائی کرتا ہے، ان میں نشانہ بنانے والے لیزر، بم چھوڑنے کے طریقہ کار اور اہم الیکٹرانک سسٹم شامل ہیں۔ یہ طیارے فلسطینیوں کو مارنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں اسرائیل کے جرائم میں شدت نیز جنگ کا دائرہ لبنان تک پھیلنے کی وجہ سے یورپی ممالک اور انسانی حقوق کا دفاع کرنے والی کچھ بین الاقوامی تنظیموں نے اسرائیل کے لیے اپنی حمایتی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جس میں ہتھیاروں کی برآمد میں کمی یا روکنا بھی شامل ہے۔ بہرحال جنگ کے موجودہ حالات اور یورپی حکام کے موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ عملی طور پر مغربی ممالک اسرائیل کی سیاسی اور فوجی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں اور صرف عوامی دباؤ کو کم کرنے کے لیے وہ امن پسند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اس تناظر میں، برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی کے الفاظ کا حوالہ دینا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ ڈیوڈ لیمی وزیر بننے سے پہلے تک صیہونی حکومت کے جرائم اور غزہ میں بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے پچھلی حکومت پر مؤثر طریقے سے دباؤ ڈال رہے تھے، لیکن اب نہ صرف خود اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کر رہے بلکہ ان کے سامنے برطانوی حکومت اسرائیل کو اس کے جرائم میں سپورٹ اور مدد کر رہی ہے۔ غزہ جنگ میں یورپی ممالک کی دوغلی پوزیشن برقرار ہے اور غاصب اسرائیل یورپی ممالک کی مدد سے اپنے جرائم جاری رکھے ہوئے ہے۔ البتہ اسرائیل کے جرائم کی شدت کے انکشاف اور رائے عامہ کے دباؤ نے یورپیوں کو اتنا مجبور کر دیا ہے کہ وہ اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی کے کھوکھلے دعوے کرنے کی اداکاری کریں۔