تحریر: ہادی خسرو شاہین
2 اکتوبر 2023ء، طوفان الاقصی آپریشن سے ٹھیک پانچ دن پہلے، امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اخبار فارن افیئرز میں "امریکہ کی طاقت کے ذرائع" کے عنوان سے ایک مقالہ شائع کیا تھا جس میں لکھا تھا: "شدید ٹکراو سے مقابلہ کرتے ہوئے ہم نے غزہ میں بحرانوں کو کم کیا ہے"۔ انہوں نے اسی طرح 29 ستمبر 2023ء کے دن ایٹلنٹک کانوسل میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: "آج مشرق وسطی خطہ گذشتہ دو دہائیوں کی نسبت پرامن تر ہے"۔ یہ بیان امریکہ کی ان اعلی سطحی دستاویزات سے مکمل ہم آہنگی رکھتا تھا جن میں بائیڈن حکومت کی وہ قومی سلامتی کی دستاویزات بھی شامل تھیں جنہیں اکتوبر 2022ء میں نشر کیا گیا تھا۔ اس دستاویز میں مشرق وسطی خطے میں نئے ایجنڈے کے ذیل میں تاکید کی گئی تھی: "خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والے خطرات کا مقابلہ کرنا: ہم تناو کم کرنے اور ٹکراو کم از کم کرنے کیلئے ممکنہ حد تک سفارتکاری کے ذریعے کوشش کریں گے۔"
اس دستاویز میں سفارتکاری بروئے کار لانے کے علاوہ ڈیٹرنس کا بھی ذکر کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا: "ہم اپنے اتحادیوں اور شریکوں سے تعاون جاری رکھیں گے تاکہ ان کی ڈیٹرنس اور ایران کی جانب سے عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے انجام پانے والی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیتوں کو فروغ دے سکیں"۔ اس ایجنڈے کے تحت متحدہ فضائی اور سمندری دفاعی ڈھانچوں کے ذریعے یہ ڈیٹرنس بڑھائی جانی تھی۔ بائیڈن حکومت کا مفروضہ یہ تھا کہ خطے میں ایران کے بازو درحقیقت پراکسی طاقتیں ہیں جو تہران کی نیابت میں اپنے اقدامات کی منصوبہ بندی اور ان کا اجرا کرتے ہیں۔ اس منصوبہ بندی میں غیر حکومتی کھلاڑیوں کے کردار کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ لہذا وہ یہ تصور کر رہے تھے کہ مسقط میں منصوبہ بندی کے ذریعے اسرائیل کے حق میں تناو میں کمی واقع ہو چکی ہے۔ البتہ سفارتکاری پر مبنی اس منصوبے کی تکمیل کیلئے اسرائیل اور سعودی عرب میں سفارتی تعلقات کی بحالی کا منصوبہ بھی شروع کر دیا گیا تھا۔
دوسرے مرحلے میں تہران کے مقابلے میں ڈیٹرنس ایجاد کرنے کیلئے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مذاکرات کی دو نشستیں منعقد ہوئیں جن میں میزائل ڈیفنس سسٹم آپریشنل کرنے اور متحدہ فضائی اور سمندری نظام تشکیل دینے پر غور کیا گیا۔ ان اقدامات کے بعد واشنگٹن میں پالیسی ساز ادارے یہ تصور کر رہے تھے کہ انہوں نے قومی سلامتی دستاویز پر عملدرآمد کرنے کیلئے اہم عملی اقدامات انجام دے دیے ہیں۔ لیکن 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی آپریشن امریکہ کیلئے بہت بڑا سرپرائز ثابت ہوا۔ یہ سرپرائز اس قدر عظیم تھا کہ جیک سلیوان فارن افیئرز کی آنلائن ویب سائٹ پر غزہ اور مشرق وسطی میں امن کے بارے میں اپنے گذشتہ بیان کو تبدیل کر کے اس کا کچھ حصہ ڈیلیٹ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس چونک جانے کی بڑی وجہ بائیڈن اور ان کی ٹیم کی جانب سے غیر حکومتی کھلاڑیوں کے کردار کو نظرانداز کرنا تھا۔
بائیڈن حکومت اور پالیسی ساز ادارے یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ وہ سفارتکاری کے ذریعے خطے کی حکومتوں کو اپنے اہداف کی جانب لے جا سکتے ہیں اور خطے میں موجود غیر حکومتی کھلاڑی اس کام میں رکاوٹ ثابت نہیں ہو سکتے۔ لیکن طوفان الاقصی آپریشن نے ثابت کر دیا کہ اسلامی مزاحمتی گروہ محض پراکسی طاقتیں نہیں ہیں بلکہ خطے میں ایران کے اتحادی ہیں اور وہ خطے کی حکومتوں کی حد تک کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خطے میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے کردار کی وسعت کے کئی اسباب ہیں؛ جیسے کچھ مذہبی اسباب۔ ان گروہوں کا کردار عراق اور لبنان سے باہر زیادہ وسیع حد تک تھا۔ لہذا حماس نے اپنے طور پر طوفان الاقصی آپریشن کی منصوبہ بندی بھی کی اور اسے اجرا بھی کر دیا اور کسی مرحلے میں بھی ایران کو مطلع نہیں کیا۔
طوفان الاقصی آپریشن جیسا سرپرائز امریکہ کیلئے بہت ناخوشگوار نتائج کا حامل تھا۔ البتہ امریکہ نے یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد بھی امریکہ اپنی قومی سلامتی دستاویز کی روشنی میں خطے کو مطلوبہ اہداف کی جانب آگے لے جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ نے خطے میں فوجی مداخلت کر کے ڈیٹرنس بڑھانے کی کوشش کی تاکہ جنگ کا دوسرا محاذ کھلنے سے روکا جا سکے اور جنگ کا دائرہ صرف غزہ تک ہی محدود رہ سکے۔ مسقط میں مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہو گیا۔ عراق کے اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے اردن میں امریکہ کے فوجی اڈے پر حملے کے بعد ان مذاکرات میں مزید تیزی آ گئی۔ تیسرے مرحلے میں بھی اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے منصوبے میں آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل کی نئی شرط رکھ دی گئی تاکہ نئے حالات میں پرانا منصوبہ آگے بڑھ سکے۔
لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا منصوبہ دوبارہ شروع کرنے کیلئے مشرق وسطی کیلئے جو بائیڈن کے مشیر میک گورک کی تمام تر کوششوں کے باوجود جو بائیڈن کو کسی کامیابی کے بغیر جنوری 2025ء میں وائٹ ہاوس سے رخصت ہونا پڑے گا۔ لبنان جنگ شروع ہونے کے بعد تناو کم کرنے کی پالیسی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ اگر خطے میں جنگ مزید پھیلتی ہے تو امریکہ اور اپنی قومی سلامتی دستاویز میں سے ڈیٹرنس کا آپشن بھی ختم کرنا پڑے گا۔ دراصل خطے کے حالات نے وہ رخ اختیار نہیں کیا جس کی توقع امریکہ کی قومی سلامتی دستاویز میں کی جا رہی تھی۔ خطے کے حالات سے عدم آگاہی نہ صرف بائیڈن حکومت بلکہ تمام ڈیموکریٹس کو بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔ جنگ کی شدت بڑھ جانے کی صورت میں نومبر 2024ء کے صدارتی الیکشن میں اس کا فائدہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ہو گا۔