تحریر: شبیر احمد شگری
ایک دن آئے گا، جب ہماری سرحدیں لبنان سے لیکر سعودی عرب کے عظیم صحراؤں سے ہوتی ہوئی بحیرہ روم سے لیکر نہرِ فرات (عراق) تک پھیلی ہوں گی۔ گذشتہ برس اسرائیلی مصنف ایوی لپکن کا یہ انٹرویو بہت وائرل ہوا تھا، جس میں اس نے گریٹر اسرائیل کے تصور پر بات کرتے ہوئے کہا تھا "فرات کے دوسری جانب کرد ہیں، جو ہمارے دوست ہیں۔ ہمارے پیچھے بحیرہ روم ہے اور ہمارے آگے کرد۔ لبنان کو اسرائیل کے تحفظ کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم مکہ اور مدینہ اور طورِ سینا پر بھی قبضہ کریں گے اور ان جگہوں کو پاک کریں گے۔" بعض اسرائیلی فوجیوں نے اپنے یونیفارم پر "گریٹر اسرائیل" کے نقشے کے بیج کا استعمال شروع کر رکھا ہے۔ اس پر عرب ممالک کے صارفین کی طرف سے تشویش ظاہر کی گئی تھی، کیونکہ "دا پرومسڈ لینڈ" (وہ زمین جس کا وعدہ کیا گیا ہے) کے نقشے میں اردن، فلسطین، لبنان، شام، عراق اور مصر کے کچھ حصے بھی شامل تھے۔
یہ سب کچھ ہونے کے باوجود مسلمان کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں موندھے بیٹھے رہے ہیں۔ اسرائیل اس کی پوری پلاننگ کرچکا تھا اور خطے کے ممالک بھی اس کا ساتھ دے رہے تھے۔ لیکن اچانک ہی اسرائیل کو اس میٹھے خواب کی ڈراؤنی تعبیر سے ہڑبڑا کر اٹھنا پڑا، جب ظوفان الاقصٰی کے شاہین ان کی سرزمین پر اترے۔ یہ طوفان الاقصٰی آپریشن کی مہربانی اور مسلمانوں پر احسان ہے کہ جس کی وجہ سے اسرائیل کے یہ خواب کرچی کرچی ہوکر رہ گئے۔ ان کرچیوں کو سمیٹتے سمیٹتے اس کے ہاتھ مزید زخمی ہوتے جا رہے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023ء کو حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے اسرائیلی حکومت کے 76 سال کے غاصبانہ قبضہ، جلاوطنی، قید، قتل و غارت اور صہیونی حکومت کے جرائم کے بعد، آپریشن "طوفان الاقصیٰ" شروع کیا، تاکہ غیر انسانی جرائم کا خاتمہ کیا جا سکے۔
فلسطینی عوام کی اپنے وطن کی جدوجہد آزادی کی حمایت اصولی پالیسی کے تحت، ایران نے بھی فلسطینی عوام، حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی دیرینہ حمایت جاری رکھی۔ جس کے جواب میں صیہونیوں نے امریکہ اور بعض مغربی ممالک کی آشیرباد کیساتھ فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ جس سے مسلمانوں اور حقوق انسانی کے دعوے دار ممالک کی مجرمانہ خاموشی سب پر عیاں ہوچکی ہے اور صیہونی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اسپتالوں، اسکولوں، ایمبولینسوں، امدادی گروپوں اور صحافیوں پر حملے کرتی رہے ہیں اور غزہ، مغربی کنارے اور لبنان کے بنیادی ڈھانچے کو بھی تباہ کرچکے ہیں۔ جس کے نتیجے میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہوا ہے، جن میں بچے، خواتین اور بوڑھے شامل ہیں۔
دنیا ان تمام مظالم کا خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے۔ مسلمان کا خون ان کی نظر میں اتنا سستا ہے کہ ان صیہونیوں کے پشت پناہوں کو یہ ظلم نظر نہیں آتا بلکہ امریکی اور مغربی عہدیدار ان تمام انسانیت کیخلاف جرائم کی توثیق کرتے ہیں اور انہیں انصاف قرار دیتے ہیں اور اگر اسرائیل کے کچھ لوگ مارے جاتے ہیں تو انھیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایران کے صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے دن ایران کے سرکاری مہمان حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں شہید کر دیا۔ جو کہ ایران کی خود مختاری کی واضح خلاف ورزی تھی، بین الاقوامی قانون کے مطابق ایران کو اس کا جواب دینا اس کا حق تھا۔ لیکن مختلف ممالک کی درخواستوں کی وجہ سے اور حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے جاری مذاکرات کی کامیابی خاطر، ایران نے انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا اور اس حق کو فی الحال ملتوی کیا۔
حالانکہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں ایک تشویش بھی پیدا ہوئی اور دشمنان اسلام نے تو بہت پروپیگنڈے کیا کہ اب ایران جواب نہیں دے گا، ایران اندر سے اسرائیل کیساتھ ہے وغیرہ وغیرہ۔ صیہونیوں نے اس صبر کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور اس کی آڑ میں اس نے وقت لیا کہ غزہ اور لبنان پر مزید حملوں کی تیاری کرے۔ صیہونیوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 85 امریکی بنکر بسٹر بموں کا استعمال کرتے ہوئے حزب اللہ کے رہنماء سید حسن نصراللہ کو شہید کیا۔ اس دہشت گردانہ کارروائی میں، حزب اللہ کے جنگجوؤں اور عام شہریوں کے علاوہ، ایران کے سینیئر فوجی مشیر جنرل عباس نیلفروشاں بھی شہید ہوئے۔ جس پر ایران نے ایسا حملہ کیا کہ دشمن کے دانت کھٹے کر دیئے۔ ایران کا یہ حملہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت تھا۔
لیکن دشمنوں اور صیہونیوں کے پشت پناہ اور آلہ کاروں کو اسرائیل پر حملے کی شدید تکلیف ہوئی۔ جو اس سے پہلے غزہ اور لبنان میں ہونیوالے مظالم اور ایران پر کئے جانیوالے حملے پر آنکھین بند کئے ہوئے تھے۔ لیکن اب اسرائیل کی حمایت میں بول اٹھے۔ ایران نے ان حملوں میں دشمن کی طرح عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ صرف ان فوجی اور سکیورٹی اڈوں کو نشانہ بنایا، جو غزہ اور لبنان میں نسل کشی کے ذمہ دار تھے۔ اس آپریشن میں 90 فیصد سے زائد اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔ اس طرح ایران نے ببانگ دہل یہ بتا دیا کہ ایران اپنی سالمیت اور دفاع پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا اور اگر اسرائیل نے مزید کوئی حماقت کی تو اسے مزید طاقتور جواب دیا جائے گا۔ اس حملے کے بعد عالم اسلام کے تقریبا تمام ممالک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ان مسلمانوں کے دلوں میں ایران کی بہادری کا ایک اور سکہ بیٹھ چکا ہے۔
مسلمان ایران کے اس اقدام سے جذبے سے سرشار ہیں، کیونکہ غزہ اور لبنان پر ہونے والے حملوں کی وجہ سے ایک عرصے سے مسلمان تکلیف اور درد کی حالت میں ہیں۔ پاکستان سمیت گنتی کے چند ممالک نے لبنان میں حسن نصراللہ کی شہادت پر شدید انداز میں مذمت کی۔ باقی عالم اسلام اپنی باری کے انتظار میں خواب غفلت کی نیند سویا ہوا ہے۔ مسلمان حکومتیں اپنے مفادات کی وجہ سے خاموش ہیں۔ لیکن عوام بدلے اور جہاد کی خواہش سے لبریز ہیں۔ دشمنوں کے ایجنٹ یہ بھی خبر پھیلاتے رہے کہ ایران کے سپریم لیڈر کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ یہ عناصر ایران اسرائیل پر کبھی حملہ نہیں کرے گا، کی بات پر تو دعوے کے ساتھ شرط لگاتے ہیں۔ ان سب کی بھی خواہش پوری ہوگئی اور جمعے کے لاکھوں کے اجتماع اور حسن نصراللہ کی فاتحہ خوانی میں ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے عام لوگوں میں چار گھنٹے گزار کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ انقلاب اسلامی کے وقت بھی ایک سپاہی کی صورت میں میدان جنگ میں اہم کردار ادا کرچکے ہیں اور آج بھی کہیں چھپے نہیں ہیں اور میدان میں موجود ہیں۔
وہ نہ کسی بینکر میں رہے اور نہ کوئی بلٹ پروف سسٹم کو نصب کیا گیا، بلکہ وہ سٹیج پر ایک ہاتھ میں اسنائپر اٹھائے، جمعے کا خطبہ دیتے رہے۔ یہ پہلا جمعہ ہے جسے صرف تمام فرقوں کے مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ اسرائیل، امریکا، برطانیہ سمیت پوری دنیا نے بھی لائیو دیکھا۔ پوری دنیا کو معلوم تھا کہ اس وقت ایران کے سپریم لیڈر کی لوکیشن کہاں ہے۔ اسرائیل کے خبطی و احمق وزیراعظم نیتن یاہو کے منہ پر کس طرح جوتا مارا گیا ہے۔ اس خطاب سے ایران نے جس قدر اسرائیل اور امریکا کو ذلیل کیا ہے، اتنا وہ میزائلی حملے میں بھی نہیں ہوئے تھے۔ دوسری جانب اسی دوران ایرانی صدر مسعود پزشکیان، قطر کے دورے پر گئے، جہاں مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ ہے اور موساد کا ہیڈ کوارٹر موجود ہے۔ ایران کی تیسری بڑی شخصیت، وزیر خارجہ عباس عراقچی عین اسی وقت اسرائیل کے پڑوس میں، یعنی لبنان میں موجود تھے، یعنی اسرائیل کی بغل میں۔ لہذا اسرائیل پوری دنیا میں جس قدر اس وقت رسوا ہوا ہے، کبھی نہیں ہوا۔
یہ جرات ان تمام اسلامی ممالک کو کرنے کی ضرورت ہے، جو نیٹو اور امریکا سے ڈر کر ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ ایران نے بہادری کا مظاہر کرکے دکھایا کہ اسرائیل کی طاقت کا طلسم ٹوٹ گیا ہے۔ مسلمانوں کو ایران اور لبنان کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے کہ انھوں نے قربانیاں دے کر "گریٹر اسرائیل" کے خواب کو چکنا چور کر دیا ہے، ورنہ اس وقت صورتحال کچھ اور ہوتی۔ درحقیقت گریٹر اسرائیل نہیں بلکہ گریٹر ایران ہے، جس نے مسلمانوں کے دل جیت لئے ہیں۔ پاکستان نے 7 اکتوبر کو یوم یکجہتی فلسطین منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلامی ممالک سمیت تمام بین الاقوامی برادری کو صہیونی حکومت کے اقدامات کی واضح اور فیصلہ کن مذمت کرنی چاہیئے اور اسرائیلی جارحیت کیلئے اپنی تاخیر شدہ ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیئے اور ان مسلم قوموں کے غصے کو کم کرنے کے اقدامات کرنے چاہیئے، جو ایک لاوے کی طرح کسی وقت بھی پھٹ سکتے ہیں۔
عالم اسلام کو دشمن کو یہ باور کرانا ہوگا کہ یہ صرف ایران، لبنان یا حوثیوں کی جنگ نہیں، یہ تمام عالم اسلام کی جنگ ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمان کیوں بزدلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جبکہ دشمن کس طرح مسلمانوں کو کچلنے کی فکر میں ہیں۔ اگر مسلمان اب بھی نہ جاگے اور اپنی طاقت اور قوت کا مظاہرہ نہ کیا اور متحد نہ ہوئے تو پھر ہر کوئی اپنی باری کا انتظار کرے۔ کیونکہ قرآن پاک میں اللہ پاک کھلے الفاظ میں یہ بیان فرما چکے ہیں کہ: "اے ایمان والو یہود و نصارٰی کو دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے، بے شک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا۔"