تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
دنیائے عرب کا ایک غریب ترین ملک یمن ہے۔ یہ وہ ملک ہے، جہاں گزشتہ چند سالوں میں بے پناہ خون ریزی کی گئی ہے۔ سنہ2015ء سے لے کر 2023ء تک مسلسل یمن میں امریکہ، برطانیہ اور مغربی حکومتوں کے ساتھ مل کر سعودی عرب کی حکومت نے معصوم انسانوں کا قتل عام کیا ہے۔ یمن کو تہس نہس کیا گیا۔ گولہ باری اور بمباری کی ایسی مثالیں قائم کی گئیں، جو آج غزہ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کر رہی ہے۔ یمن کا حال غزہ سے بدتر بنا دیا گیا تھا۔ نو سال کی جنگ کو جھیل جانے والا یمن آج بھی سینہ تان کر نہ صرف یمن کی عزت اور افتخار میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ پوری مسلم دنیا میں یمن کا ایک بے مثال مقام قائم ہوچکا ہے۔ یمن کو یہ عزت صرف اور صرف اس لئے حاصل ہے، کیونکہ یمن کی قیادت یعنی انصار اللہ کے سربراہ سید عبد الملک بدرالدین حوثی نے غزہ کی جنگ کے بعد اپنی قوم سے ایک ہی بات کی اور کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق فلسطینیوں کی مدد کریں گے اور اگر ہم نے آج غزہ کے مظلوموں کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق مدد نہ کی تو ہمیں اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیئے۔
یمن کے اس رہنماء کے احساس ذمہ داری نے جہاں یمن کی عوام، مسلح افواج اور انصار اللہ کو ذمہ داریوں کی انجام دہی کی طرف مائل کیا ہے، وہاں دنیا بھر کے انسانوں کے لئے ایک فارمولہ طے کر دیا ہے کہ جو کچھ آج ہم غزہ کے لئے کریں گے، وہ ہماری اپنی نجات کا باعث ہے، نہ کہ غزہ اور فلسطین کے عوام پر کوئی احسان ہے۔ یمن نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے غزہ کے ساتھ یکجہتی کی اور جو کچھ یمن کی استطاعت کے مطابق تھا، اسے آج تک انجام دیا جا رہا ہے۔ یمن کیا کرسکتا تھا؟ یمن بحیرہ احمر میں اسرائیل کے جہازوں کو روک سکتا تھا، یہ یمن کی استطاعت میں تھا، تاہم یمن نے اسرائیل کے تمام بحری جہازوں کو دنیا کے مختلف ممالک میں جانے اور وہاں سے آنے کے لئے بحیرہ احمر کے علاقوں میں بلاک کر دیا اور روکنا شروع کر دیا۔ جب جب کسی جہاز نے خلاف ورزی کی، اس کو میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔
سات اکتوبر سے اب تک یمن کی مسلح افواج اور انصاراللہ نے درجنوں ایسے بحری جہازوں کو روکا اور تباہ کیا ہے، جن کا تعلق غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تھا۔ حتیٰ جہازوں کو روکنے کے دوسرے مرحلہ میں یمن کی مسلح افواج نے اعلان کیا کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی طرف جانے والے کسی بھی ملک کے بحری جہاز کو اجازت نہیں ہے۔ اس کے بعد سے ہی یمن کی مسلح افواج نے امریکہ اور برطانیہ کے متعدد جہازوں کو روکا اور میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ امریکی بحری جہاز اور برطانوی بحری جہاز بحیرہ احمر کے پانی میں غرق ہو رہے تھے۔ ان مناظر کو یمن میں دلکش اور حسین مناظر سے تشبیہ دیا گیا۔ بات یہاں تک نہیں رکی، امریکہ او برطانیہ نے یمن پر بمباری کی، غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے بھی یمن پر ڈرون حملہ کیا اور آئل ڈپو کو نقصان پہنچایا۔
لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ ان سب حملوں اور دشمن کی کارروائیوں کے باوجود بھی یمن کی عوام، مسلح افواج اور انصاراللہ کے حوصلوں میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ ہمیشہ کی طرح گیارہ ماہ سے مسلسل ہر جمعہ کو غزہ سے یکجہتی کا سب سے بڑا اجتماع آج بھی یمن میں ہوتا ہے۔ آج بھی یمن کی مسلح افواج بحیرہ احمر میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی جہازوں سمیت ہر اس جہاز کو نشانہ بنا رہی ہیں، جو اسرائیل جا رہا ہو یا اسرائیل سے کسی اور ملک جانے کی کوشش کرے۔ سب کے لئے راستہ بند ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے مسلسل یمن کی جاسوسی کرنے کے لئے امریکا کا جدید ترین ڈرون ایم کیو نائن استعمال کیا ہے۔ جس کے ذریعہ امریکہ جاسوسی کرکے یمن کے ایم فوجی اور حساس مقامات کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن گیارہ ماہ میں امریکہ کے نو MQ9 ڈرون طیارے یمن کی مسلح افواج کے ہاتھوں تباہ کئے گئے ہیں۔
امریکی ڈرون ایم کیو نائن کی قیمت تیس ملین ڈالر ہے، یعنی ایک طیارہ تین کروڑ ڈالر مالیت کا ہے، جو اب تک نو تباہ کئے جا چکے ہیں۔ یہ صرف ایک نقصان ہے، جو یمن نے امریکہ کو پہنچایا ہے۔ نہ صرف یہ مالی اعتبار سے نقصان ہے بلکہ یہ ایم کیو نائن ڈرون پچاس ہزار فیٹ کی بلندی پر پرواز کرنے والا امریکی دفاعی نظام میں سب سے جدید اور مایہ ناز سمجھا جاتا ہے، لیکن یمن میں اس جدید ٹیکنالوجی کو نو مرتبہ پیروں تلے روند دیا گیا ہے۔ ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت میں امریکہ کی فوجی برتری کی شکست کا اعتراف ہے۔ آئے روز یمن کی مسلح افواج اپنے دیسی ساختہ اسلحہ کی مدد سے امریکہ کے جدید ترین ڈرون طیارے کو نشانہ بناتے ہیں اور مار گراتے ہیں۔
یمن کی مسلح افواج نے مختلف اوقات میں امریکہ کے اس جدید ڈرون طیارے کو مار گرایا ہے، جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ 8 نومبر 2023ء کو امریکی فضائیہ نے تصدیق کی کہ امریکی MQ-9 یمن میں انٹرنیشنل سمندری حدود کے قریب مار گرایا گیا ہے۔ 4 نومبر 2023ء ایک ہفتے کے اندر یمن کی مسلح افواج اور انصاراللہ نے ایک اور MQ-9 ڈرون کو مار گرایا، جس کے بارے میں امریکی سینٹرل کمانڈ نے تصدیق کی۔ 9 فروری 2024ء کو انصاراللہ نے ایک اور گرائے جانے والے MQ-9 کی تصاویر نشر کر دیں، جس کے بعد امریکہ نے کہا کہ ان کا ایک MQ-9 ریپر یمن میں مار گرایا گیا ہے۔ 25 اپریل 2024ء کو یمن کی مسلح افواج نے ایک اور کامیاب کارروائی میں صعدہ میں امریکی MQ-9 ڈرون مار گرایا۔ 16 مئی 2024ء کو دوربارہ یمنی مسلح افواج نے مآرب کے علاقہ میں پرواز کرتے ہوئے ایک اور امریکی MQ-9 ڈرون کو مار گرایا۔ 21 مئی 2024ء کو یمنی مسلح افواج نے ایک اور کارروائی کرتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر دوسرا امریکی MQ-9 بھی مار گرایا، جو کہ البیضاء میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
29 مئی 2024ء یمن کی مسلح افواج اور انصاراللہ نے مئی کے مہینے میں مسلسل تیسرا MQ-9 مار گرایا اور اس کو بھی مآرب کے علاقہ میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ 4 اگست 2024ء کو یمن کی مسلح افواج نے صعدہ میں امریکی MQ-9 ڈرون مار گرایا اور اس کے فوری بعد 7 ستمبر 2024 کو بھی صعدہ میں امریکی MQ-9 ڈرون کو پرواز کے دروان نشانہ بنایا گیا اور مار گرایا۔ خلاصہ یہ ہے کہ سنہ 1982ء میں امریکی بحری بیڑہ نیو جرسی امریکہ سے چلا اور لبنان کے ساحل پر پہنچا تھا اور اس زمانے میں لبنان میں ایک صحافی جوزف ابو خلیل نے اخبار میں لکھا تھا کہ نیو جرسی کی ہیبت لبنان کے ساحل سے ٹکرا رہی ہے، مظلوموں کا خدا کہاں ہے۔؟ اس کے جواب میں لبنانی جوان، جنہوں نے بعد میں حزب اللہ کی بنیاد رکھی، انہوں نے کچھ عرصہ بعد لبنان میں امریکی میرینز پر ایک کاری ضرب لگائی اور دو سو تیس سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک ہوگئے، جس کے بعد لبنان کے اسی اخبار میں یہ خبر نشر کی گئی کہ مظلوموں کا خدا لبنان میں ہے، نیو جرسی کی ہیبت کہاں ہے۔؟ آج بحیرہ احمر میں غرق ہوتے امریکی بحری جہازوں کو دیکھ کر اور امریکہ کی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ایم کیو نائن ڈرون طیاروں کی مسلسل تباہی اور بربادی دیکھ کر ایک مرتبہ پھر سنہ1982ء کی یاد تازہ ہو رہی ہے کہ مظلوموں کا خدا یمن میں ہے، اب امریکی ہیبت کہاں ہے۔