تحریر: کاظم زادہ
فلسطین کی حمایت میں احتجاجی ریلیاں اور دھرنے اس سال کے موسم بہار میں امریکی یونیورسٹیوں میں شروع ہوئے اور بڑی تیزی سے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں پھیل گئے۔ حال ہی میں ڈنمارک کی پولیس نے غزہ میں جاری جنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے گریٹا تھنبرگ اور دیگر 6 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔، اس 21 سالہ سویڈش لڑکی جو کہ ماحولیات کے میدان میں سرگرم ہے اور دنیا بھر میں شہرت رکھتی ہے، اس نے کوپن ہیگن یونیورسٹی کی انتظامیہ سے صیہونی حکومت کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک نوجوان کے طور پر، وہ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے کی طرف توجہ مبذول کرنے کی سرگرمیوں کی وجہ سے ماحولیاتی تحریک کے رہنماؤں میں سے ایک بن چکی ہیں۔
احتجاج کرنے والے طلباء کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ایسے وقت جب فلسطین کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ کوپن ہیگن یونیورسٹی نے اسرائیل کے تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ طلباء کا کہنا ہے کہ وہ اپنی احتجاجی ریلیوں کو اس وقت تک نہیں روکیں گے، جب تک کہ کوپن ہیگن یونیورسٹی اسرائیلی یونیورسٹیوں کے ساتھ اپنا تعاون ختم نہیں کر دیتی۔ انہوں نے یونیورسٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ صیہونی حکومت کے تعلیمی اداروں کے ساتھ اپنے تعاون اور تحقیقی تبادلے کے معاہدے کو منسوخ کرے۔
گریٹا تھنبرگ غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار ہونے والی پہلی اور آخری شخصیت نہیں ہے۔ 41 سالہ رچرڈ برنارڈ، جو "فلسطین ایکشن" گروپ کے بانیوں میں سے ایک ہیں، ان کو مانچسٹر اور بریڈ فورڈ میں فلسطینی مزاحمت کے حق میں مسلسل تقریریں کرنے کے بعد، برطانوی دہشت گردی کے قانون کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ 18 ستمبر کو انہیں عدالت میں پیش ہونا ہے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق یہ الزام اس مظاہرے سے متعلق ہے، جو گذشتہ سال 8 اکتوبر کو طوفان الاقصی آپریشن کے آغاز کے ایک دن بعد اور 11 اکتوبر کو بریڈ فورڈ میں کیا گیا تھا۔ اسی طرح کی جھڑپیں اور جبر و تشدد یورپ اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک میں بھی ہوا ہے اور صرف امریکہ میں 3000 سے زائد طلباء اور پروفیسروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
فلسطین کی حمایت میں احتجاجی ریلیاں اور دھرنے اس سال کے موسم بہار میں امریکی یونیورسٹیوں میں شروع ہوئے اور تیزی سے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں پھیل گئے۔ غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت کرتے ہوئے امریکی طلباء نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی یونیورسٹیاں صیہونی حکومت کے ساتھ تعاون اور شرکت کرنے والی کمپنیوں سے مالی تعلقات منقطع کر دیں۔ احتجاج کرنے والے طلباء نے اعلان کیا کہ مختلف شعبوں میں ریاستہائے متحدہ میں اسلحہ سازی کی صنعت پر یونیورسٹیوں کا جان بوجھ کر انحصار پیدا کرنے کی وجہ سے یہ تعلیمی مراکز جنگی منصوبوں میں کام کرنے والی افواج کو تربیت دینے کے لیے ایک مرکزی نظام بن گئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب سینکڑوں امریکی طلباء نے آخری سمسٹر میں غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کے خلاف مظاہروں کی وجہ سے بعض متنازعہ یونٹس کا انتخاب کرنے سے گریز کیا، جس کی وجہ سے انہیں تعلیمی معطلی اور مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ احتجاج کے پچھلے مرحلے میں گرفتار ہونے والے طلباء کی تعداد 3000 کے لگ بھگ تھی۔ ان میں سے بہت سے طالب علم اب بھی تعلیم اور امریکی قانونی نظام کے نتائج کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیل مخالف مظاہروں کے ایک نئے دور کے آغاز کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کے ساتھ اس وقت امریکی یونیورسٹیاں ان مظاہروں کو محدود کرنے والے نئے ضابطے تیار کر رہی ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں، نیویارک یونیورسٹی نے ایک نیا ضابطہ اپ ڈیٹ کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ "صیہونیوں" کو نشانہ بنانے والی تقریر اور رویئے اب یونیورسٹی کے غیر امتیازی قوانین کی خلاف ورزی شمار ہوسکتے ہیں، کیونکہ یونیورسٹی صیہونیت کو یہودیت کا کوڈ نام سمجھتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ضابطہ "ایک خطرناک نظیر قائم کرتا ہے اور یہودیوں کے خلاف امتیازی سلوک کے ساتھ صیہونیت کی تنقید کے برابر ہے۔" وینڈربلٹ یونیورسٹی نے ان تمام مظاہروں پر پابندی عائد کر دی ہے، جن میں لوگ احتجاج کی علامت کے طور پر فرش پر سوتے ہیں، اسی طرح رات کے احتجاج پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں طلباء نے کہا ہے کہ یونیورسٹی نئے آنے والے طلباء کے لیے ایک لازمی واقفیت کا اجلاس منعقد کرتی ہے، جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں اسرائیل پر تنقید کرتے وقت کیا کہا جا سکتا اور کیا نہیں کہہ سکتے، جن اداروں میں گذشتہ تعلیمی سال میں احتجاج اور ریلیاں دیکھنے میں آئی تھیں اور جن جگہوں پر احتجاجی طلباء نے دھرنے دئیے تھے، اس کے گرد باڑ لگا دی گئی ہے اور وہان پولیس اور سکیورٹی فورسز کی تعداد بڑھا دی گئی ہے۔ پنسلوانیا یونیورسٹی نے کیمپ لگانے اور رات کے احتجاج کے انعقاد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان پابندیوں اور جبر کا اطلاق طلبہ کو اپنے احتجاج سے باز نہیں رکھ سکا۔
غزہ کی حمایت میں ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن کے مقام کے قریب مظاہرے کے بعد فلسطین کے حامیوں نے امریکی یونیورسٹیوں کے نئے تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ ہی اپنے احتجاج کا نیا دور شروع کر دیا ہے۔ 10 ستمبر کو ڈیموکریٹک امیدوار کاملہ ہیرس اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مباحثے کے دوران، طلبہ نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی سالگرہ کی مناسبت سے فلاڈیلفیا اور بڑے شہروں اور یونیورسٹی کیمپس میں احتجاج کا منصوبہ بنایا ہے۔