تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
بچپن میں بہت سی ایسی کہانیاں سنی تھیں کہ جب کسی بھیڑیئے کے منہ کو انسانی خون لگ جاتا ہے تو وہ ہمیشہ انسانی خون کی تلاش میں رہتا ہے، دنیا کی کوئی چیز اسے سکون نہیں دیتی۔ اسے جو کچھ مرضی مل جائے، وہ ہمیشہ انسانی خون کی تلاش میں رہتا ہے۔ امریکہ اور اس کے چند حواریوں کو چھوڑ کر پوری دنیا کہہ رہی ہے کہ غزہ میں انسانی تاریخ کا بدترین قتل عام کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کی تنظیمیں کہہ رہی ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ دنیا بھر کے انسان دوست جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مگر اسرائیلی وزیراعظم کے منہ کو انسانوں کا خون لگ گیا ہے اور وہ ہر صورت میں چاہتا ہے کہ غزہ میں یہ قتل جاری رہے۔ اسرائیلی وزیراعظم ہر اس عمل کی حمایت کر رہا ہے بلکہ انجام دے رہا ہے، جس سے جنگ بندی مشکل سے مشکل تر ہوتی جائے۔ امریکہ اور دیگر یورپی اتحادی نیتن یاہو کو وقت دے رہے ہیں، تاکہ وہ اپنے جنگی نظریات کو عملی جامہ پہنا لے۔
بین الاقوامی میڈیا اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں ایک تنگ پٹی سے ملحقہ علاقے پر تارکول کی سڑک بنانے کا کام کر رہا ہے۔ یہ تنگ پٹی دراصل مصر کے ساتھ غزہ کی سرحد کے ساتھ گزرتی ہے اور عسکری حکمت عملی کے لحاظ سے انتہائی اہم ہے۔ 26 اگست سے پانچ ستمبر تک وقفے وقفے سے لی گئی سیٹلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ سرحد پر نصب خاردار تاروں کے ساتھ ساحل کے اندر 6.4 کلومیٹر تک ایک نئی سڑک بچھائی جا چکی ہے۔ اس راہداری پر رفح کراسنگ بھی کہلاتی ہے، جو غزہ پٹی کو مصر سے ملاتی ہے۔ یہ غزہ کی مصر سے متصل واحد کراسنگ ہے، جس پر اسرائیل کا براہ راست کنٹرول نہیں ہے۔ یہ مصر سے اہم رسد کے لیے واحد زمینی راستہ بھی ہے۔ یہ 12.6 کلومیٹر طویل سرحد مصری سرحد کے ساتھ کریم شالوم سے بحیرۂ روم تک جاتی ہے۔ فلسطینی اسے صلاح الدین محور کہتے ہیں۔
اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ اس پٹی پر مکمل طور پر اس کا قبضہ رہے اور مصر و فلسطین کے درمیان رابطہ کاٹ دیا جائے۔ یوں چاروں طرف سے غزہ اسرائیل میں محصور ہو جائے گا۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے دیہات کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے اور اب وہاں پر ایک فوجی اڈا تعمیر کر رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے، جیسے جیسے اس کی تعمیر پر اسرائیلی انویسٹمنٹ بڑھ رہی ہے، دنیا کے ماہرین یہ کہہ رہے ہیں نیتن یاہو کبھی بھی جنگ بندی کو قبول نہیں کرے گا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ مصری فوج کے بعض عناصر نے غزہ میں حماس کی مدد کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ لہذا اب یہاں پر بھی اسرائیل اپنا کنٹرول رکھے گا۔ فلسطینی زمین پر دنیا کے کسی بھی آزاد ملک کی طرح اسرائیلی قبضہ قبول نہیں کریں گے۔ یوں یہ جنگ چلتی رہے گی اور نیتن یاہو کی زبان کو لگا انسانی خون ملتا رہے گا۔
جنگ جاری ہے، ہر طرف حملے ہو رہے ہیں۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اردن اور مقبوضہ مغربی کنارے کے درمیان سرحدی مقام پر تین اسرائیلی مردوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ جس نے حملہ کیا، اس کا نام مہر جازی ہے، جو اردن کا باشندہ ہے۔ وہ ایک ٹرک میں اردن کی طرف سے ایلنبی پل کراسنگ کے قریب پہنچا، باہر نکلتے ہی گولی چلا دی۔ شام پر اسرائیلی بربریت جاری ہے، جہاں نہتے انسانوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔ شام کے سرکاری میڈیا نے حما کے ہیلتھ ڈائریکٹر مہر الیونس کے حوالے سے بتایا کہ شام کے دیہی علاقوں حما پر اسرائیلی حملے میں اب کم از کم 16 افراد شہید اور 36 زخمی ہوگئے ہیں۔ الیونس نے مزید کہا کہ چھ افراد کی حالت اب بھی تشویشناک ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک کا کہنا ہے کہ غزہ میں 11 ماہ سے جاری جنگ کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے۔ مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کو نظرانداز کرنے والی قوتوں کے اس طرز عمل کو سانحہ قرار دیا۔ترک نے کہا کہ ریاستوں کو سلامتی کونسل کے فیصلوں، آئی سی جے کے فیصلوں اور بین الاقوامی قانون کی بے توقیری نہیں کرنی چاہیئے۔ انہوں نے جولائی میں اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے جاری کردہ ایک فیصلے کا حوالہ دیا، جس میں اسرائیل کے قبضے کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ دنیا کے عام انسان جنگ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ امن پسند کارکنوں نے آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ بدھ کو شروع ہونے والی دفاعی نمائش میں بھی خلل پڑا ہے۔ مظاہرین میلبورن میں اسلحہ سازی سے منسلک کمپنیوں کے دفاتر کے سامنے جمع ہوئے اور شدید احتجاج کیا۔
کمپنیوں کی عمارتوں کے سامنے پولیس کی بڑی تعداد موجود تھی۔ 25,000 سے زیادہ شرکاء نے اس احتجاج میں حصہ لیا ہے۔ اتوار کے روز، Extinction Rebellion کے کارکنوں نے میلبورن کنونشن اینڈ ایگزیبیشن سینٹر کے قریب روڈ کو بلاک کر دیا، جہاں یہ ایکسپو منعقد ہو رہی ہے۔ آسٹریلیا میں امن پسند مظاہرین حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ غزہ پر جنگ پر اسرائیل پر پابندیاں عائد کرے اور اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی روکے۔ قارئین کرام اسرائیل نے نہ پہلے کبھی اقوام متحدہ کی سنی ہے کہ وہ اب اس کی سنے گا، اسی طرح اس نے پہلے بھی بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلوں کو جوتے کی نوک پر رکھا ہے اور آج بھی ایسا ہی کر رہا رہے۔ ایسے میں دنیا کے ان اداروں کے خود ساختہ ٹھیکداروں کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے، جو دنیا کو امن و آزادی کے بھاشن دیتے ہیں۔ آسٹریلیا ہو یا امریکہ، دنیا بھر میں سڑکوں پر نکلے امن پسند عوام کی تو خیر یہ سنتے ہی نہیں ہیں۔