تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.com
کیا کوئی مطالعے کی افادیت سے انکار کرسکتا ہے؟ مطالعہ جہاں علم کی وسعت اور علم کی تخلیق و تعمیر کا مخزن ہے تو وہاں مطالعہ فکری، علمی، اخلاقی، روحی اور نفسیاتی وسعت اور فعالیت کا ذریعہ بھی ہے۔ مطالعہ جہاں تعمیرِ خودی، تفسیرِ افکار، کشفِ اسرار، تبحّر علمی، ذہن و عقل اور شخصیت کی آبیاری اور کسرِ ضیاع وقت کا باعث ہے تو وہاں مطالعہ رشد و تکاملِ انسانی، عقل و شعور میں اضافہ، شعور کی بیداری اور اپنی ذمہ داریوں کی طرف احساس دلانے کا بہترین مشیر بھی ہے۔
مطالعہ جہاں کامیاب انسانوں کی سیرت، سماجی ضرورت، فطری احتیاج، تاریخ اور تاریخی شخصیات سے آشنائی کا وسیلہ ہے تو وہاں مطالعہ میں بیتائے گئے اوقات گلشن و گلستانِ عالم میں عطر و عنبر گلاب و مشک آہو کے درمیان عالم ملک و ملکوت کی سیر و سلوک کے حسین ترین لمحات ہیں۔ مطالعہ جہاں فکری اور علمی پختگی کا سبب ہے، وہاں مطالعہ جہان کی تعلیمی، تہذیبی، سیاسی اور اقتصادی احوال سے واقفیت بھی ہے۔ مطالعہ ایک ایسی دلچسپ سرگرمی ہے کہ جس میں انسان محو ہو کر لمحہ بہ لمحہ کبھی عالم انفس تو کبھی عالم آفاق کی سیر و سیاحت میں مشغول رہتا ہے۔ مطالعہ جہاں ایک شخص کی تعمیر و ترقی میں معاون و مددگار ہے، وہیں پر اگر ایک قوم صاحبِ مطالعہ بن جائے تو وہ قوم باقی اقوام کی راہ نما بن جاتی ہے۔
مطالعہ و کتاب سے دوستی کامیاب ترین انسانوں کا مشغلہ ہے۔ کتاب و قلم صرف نوکر بننے کا وسیلہ نہیں بلکہ انسان کو انسانیت کی معراج تک پہنچانے کا بہترین استاد بھی ہے۔ کتاب ہادی بھی، منجی بھی، محسن بھی، احسان بھی، علم بھی، عمل بھی، شعور بھی، آگہی بھی، راہ بھی، راہگیر بھی، عہد بھی، میثاق بھی، عزم بھی، بزم بھی، رسم بھی، رزم بھی، مشغلہ بھی، وسیلہ بھی، رہبر بھی رہنماء بھی اور ساتھ ساتھ معمارِ زندگی بھی ہے۔