0
Saturday 7 Sep 2024 10:31

فلاڈیلفیا کراسنگ پلان، ایک نیا صیہونی جال

فلاڈیلفیا کراسنگ پلان، ایک نیا صیہونی جال
تحریر: محمود حسن

فلاڈیلفیا کراسنگ کا مسئلہ غزہ پٹی میں جنگ بندی کے لیے مصر، قطر اور امریکہ کی ثالثی میں جاری مذاکرات کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ اسرائیل غزہ اور مصر کے درمیان سرحدی گزرگاہ سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ دریں اثنا، حماس اسرائیل کے مکمل انخلاء پر اصرار کرتی ہے اور مصر کو باور کرا رہی ہے کہ مصر اور اسرائیل کے درمیان 1979 کے امن معاہدے کے تحت یہ کراسنگ ایک بفر زون ہے۔ جیسے جیسے 7 اکتوبر طوفان الاقصی آپریشن کی پہلی برسی قریب آرہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ 14 کلومیٹر طویل اور 100 میٹر چوڑی فلاڈیلفیا کراسنگ کا مسئلہ جنگ بندی مذاکرات کے لئے چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ فلاڈیلفیا کے نئے منصوبے کی تفصیلات نہایت خطرناک ہیں اور ایک بم کی مانند کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہیں۔ یہ مسئلہ مذاکرات کو خطرے میں ڈالنے اور سرحد پر ایک نئی صورتحال کا باعث بن سکتا ہے، جس سے مصری سلامتی کے لیے سنگین مضمرات ہوسکتے ہیں۔

نیتن یاہو مصر کو اپنے کنٹرول میں رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔ اس تجویز اور منصوبے کی منظوری اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے دی تھی اور صرف وزیر جنگ Yoav Galant نے اس کے خلاف ووٹ دیا تھا، جس کی وجہ سے ان کے اور نیتن یاہو کے درمیان پھوٹ پڑ گئی تھی۔ آپریشنل پوائنٹس، مشاہداتی ٹاورز، بھاری مسلح افواج اور فضائی محاصرہ کے ذریعے اسرائیلی فوج ایک مضبوط پوزیشن میں آسکتی ہے اور یہ ناصرف فلسطینی مزاحمتی گروہوں بلکہ مصری فوج پر بھی دباؤ کو بڑھا سکتی ہے۔ حالانکہ یہ مصر اور اسرائیل کے درمیان بفر زون ہے، جس پر کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں اتفاق کیا گیا تھا۔ تجویز کے ابتدائی حصے کو پڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیتن یاہو فلاڈیلفیا کراسنگ کو کنٹرول کرکے زیر زمین سرحدی سرنگوں کے ذریعے کسی قسم کی دراندازی کو روکنا چاہتا ہے۔

صہیونی اس علاقے میں فلسطینی گروپوں کو غیر مسلح کرکے جنوب سے غزہ پٹی کا گھیراؤ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس طرح غزہ پٹی کے وسط میں نیٹزارم کے محور کو بھی کنٹرول کرنا چاہتا ہے، تاکہ حماس کو اپنی صلاحیتوں کو بحال کرنے سے روکا جا سکے۔ اسرائیل کا منصوبہ فلاڈیلفیا معاہدے کی تفہیم کو نظر انداز کرنا ہے، جس پر اسرائیل نے 2005 میں مصر کے ساتھ دستخط کیے تھے۔ یہ معاہدہ اسرائیل کی کنیسٹ (پارلیمنٹ) کے 2004 میں غزہ پٹی سے تمام اسرائیلی افواج کے انخلاء پر اتفاق کے بعد طے پایا تھا اور یہ فیصلہ اگست 2005 میں نافذ العمل ہوا تھا۔بہرحال مہینوں سے جاری مذاکرات میں قاہرہ کی پوزیشن مزید سخت ہوسکتی ہے۔ امریکی ویب سائٹ Axios کے مطابق مصری حکام نے اس منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے امریکا اور اسرائیل کو آگاہ کر دیا ہے کہ پیش کردہ منصوبہ ممکن نہیں ہے۔

چند روز قبل قاہرہ نیوز چینل جو کہ مصر کی انٹیلی جنس ایجنسی کے قریب ہے، اس نے ایک اعلیٰ سطحی ذریعے کے حوالے سے بتایا تھا کہ مصر رفح کراسنگ یا فلاڈیلفیا کراسنگ پر کسی اسرائیلی فوجی کی  موجودگی کو قبول نہیں کرتا ہے، البتہ اس کا ایک حصہ اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہے۔ فلسطینی امور کے سیاسی ماہر محمد جمال کا کہنا ہے کہ انسانی امور کی نگرانی کے بہانے کراسنگ پر قیام اور اسرائیلی افواج کی موجودگی کا نقشہ تیار کرنے کے ساتھ ساتھ غزہ کے لیے اسرائیلی فوجی گورنر مقرر کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ قابض حکومت غزہ میں طویل عرصے تک رہنے کے لیے تیار ہے اور کسی بھی جنگ بندی معاہدے کو توڑنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

نیتن یاہو قیدیوں کے تبادلے کو روک کر مصر پر ایک نئی صورتحال مسلط کرنا چاہتا ہے۔ اگر نیتن یاہو ان اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے  تو مصر کو اس نئی صورتحال کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہوگا اور اپنی سرحدوں کے ساتھ اس خطے کو اسرائیلی ہاتھوں میں دیکھنا ہوگا۔ اس سے مصر سرحدی تنازعات میں الجھ سکتا ہے، جو ملک کو مستقبل میں تنازعات میں لا سکتا ہے، خاص طور پر جب فلسطینی مزاحمت فلاڈیلفیا کراسنگ پر قابض افواج کو نشانہ بنائے گی۔ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے مصر نے حماس کے خاتمے، جسے وہ اخوان المسلمون کا حصہ سمجھتا ہے اور اسے ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر درجہ بندی کرتا ہے، کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے خاموش رضامندی کو ظاہر کرکے نیتن یاہو کی حوصلہ افزائی کی تھی، اب اسے رفح گزرگاہ کے حوالے سے ایک نئی صورتحال کا سامنا ہے۔

اسرائیلی اخبارات نے اطلاع دی ہے کہ اگر فلسطینی اتھارٹی کہے تو مصر اور متحدہ عرب امارات غزہ کی امن فوج میں حصہ لینے پر راضی ہو جائیں گے۔ 5 اگست کو العالمین کے علاقے میں مصری انٹیلی جنس حکام کے ساتھ موساد کے وفد کی بات چیت اور متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید کے اپنے مصری ہم منصب عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کے دوران یہ بات زیر بحث آئی ہے۔ نیتن یاہو کی چالاکیوں کو دیکھتے ہوئے، جس نے جنگ بندی کے مذاکرات کو ایک بار پھر اسکوائر ون تک پہنچا دیا ہے اور یہاں تک کہ اس نے فلاڈیلفیا کی مجوزہ کراسنگ کی پیچیدگیوں میں مصریوں کو بھی شامل کرکے ایک ناخوشگوار صورتحال پیدا کر دی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کراسنگ پر اسرائیل کی موجودگی تل ابیب کے حق میں ہوگی، لیکن اسے محفوظ بنانے کی زیادہ لاگت اور متوقع نقصان کی مقدار یہ بتاتی ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہوگا اور شاید یہ کرسنگ ان کے لئے ایک  دلدل بن جائے۔

سیاسی محقق عمر المصری کے مطابق مصر اسرائیل کے ساتھ فیصلہ کن طریقے سے نمٹنے کے لیے جو ممکنہ حل استعمال کرسکتا ہے، ان میں سفارتی اور فوجی اقدامات شامل ہیں۔ ان اقدامات میں قابضین کے ساتھ سکیورٹی کوآرڈینیشن کو روکنا، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو روکنا، تل ابیب سے مصری سفیر کو واپس بلانا اور قابضین پر کیمپ ڈیوڈ معاہدوں کی خلاف ورزی کا الزام لگانے کے لیے بین الاقوامی عدالتوں سے رجوع کرنا شامل ہیں۔ یہ اقدامات نیتن یاہو کو غزہ کے حوالے سے اپنی متنازعہ تجویز سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ تاہم مبصرین اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ السیسی کی حکومت اس تجویز کو منظور کر لے گی اور اسے امریکہ اور شاید متحدہ عرب امارات کی حمایت سے عملی جامہ بھی  پہنادے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ السیسی خفیہ مراعات حاصل کرنے پر راضی ہوسکتے ہیں، جن میں فوجی، اقتصادی اور سکیورٹی اور انٹیلی جنس کوآرڈینیشن نیز اعلیٰ ترین سطح پر کراسنگ کے انتظام میں شامل ہونا بھی شامل ہے۔ ایسا معاہدہ عارضی طور پر دونوں فریقوں کے مفاد میں ہوسکتا ہے، بشرطیکہ تل ابیب غزہ میں اپنا مشن ختم ہونے کے بعد رفح کراسنگ سے دستبردار ہونے کا وعدہ پورا کرے۔ Yediot Aharonot نیتن یاہو کے حوالے سے پیر کو لکھتا ہے کہ واشنگٹن اور قاہرہ نے ان کی تجویز پر اتفاق کیا ہے، لیکن اس پر گیلنٹ نے جواب دیا کہ یہ ان پر نہیں بلکہ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ یحییٰ سینور پر منحصر ہے۔

بلاشبہ، دیگر آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے، جن میں امریکی وزیر خارجہ، انتھونی بلنکن کی یہ تجویز بھی شامل ہے کہ اگر اسرائیل رفح کراسنگ سے مکمل طور پر پیچھے ہٹ جاتا ہے، تو صرف بین الاقوامی افواج اور امریکی اور فلسطینی اتھارٹی سے وابستہ فورسز فلاڈیلفیا کراسنگ پر چھ ماہ تک موجودرہیں گی۔ بہرصورت، اسرائیل غزہ کے لوگوں کو فلاڈیلفیا کراسنگ اور نیٹزاریم کے محور کے درمیان پھنسانا چاہتا ہے اور مصر کے ساتھ صرف زمینی سرحد کو کنٹرول کرکے انہیں مکمل طور پر گھیرنا چاہتا ہے، جس کے جغرافیائی، سیاسی اور سکیورٹی خطرات نہایت سنگین ہوسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1158552
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش