تحریر: علی احمدی
غزہ پر صیہونی جارحیت کو 11 ماہ ہونے والے ہیں جبکہ 40 ہزار سے زیادہ بے گناہ فلسطینی خواتین، بچے اور بوڑھے شہید ہو چکے ہیں۔ ساتھ ہی غاصب صیہونی رژیم نے مغربی کنارے پر بھی فوجی جارحیت شروع کر رکھی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ اور مغربی کنارے پر اپنی جارحیت میں شہری مراکز، انفرااسٹرکچر اور رہائشی عمارتوں کو وسیع پیمانے پر نشانہ بنایا ہے۔ حال ہی میں حماس نے این بیانیہ جاری کیا ہے جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم غزہ اور مغربی کنارے سے فلسطینیوں کو طاقت کے زور پر نقل مکانی پر مجبور کرنا چاہتی ہے اور ان علاقوں کو 1948ء کی مقبوضہ سرزمینوں سے ملحق کرنے کے درپے ہے۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ غاصب صیہونی رژیم درحقیقت کچھ خفیہ اہداف کے درپے ہے جن کیلئے اس نے "جلی ہوئی زمین" نامی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔
جلی ہوئی زمین نامی حکمت عملی کیا ہے؟
جلی ہوئی زمین یا Scorched Earth نامی حکمت عملی کی اصطلاح پہلی بار 1937ء میں چین اور جاپان کے درمیان جنگ سے متعلق رپورٹ میں بروئے کار لائی گئی تھی۔ اس کے بعد یہ حکمت عملی مختلف جنگوں میں دیکھی گئی ہے جیسے گواتمالا کی 36 سالہ خانہ جنگی جو 1996ء میں 2 لاکھ سے زیادہ افراد کی ہلاکت کے بعد اختتام پذیر ہوئی اور ہلاک شدگان کی زیادہ تعداد مقامی مایا افراد پر مشتمل تھی۔ البتہ کچھ دیگر جنگوں جیسے روس کے خلاف نیپولین کی جنگ (1812)، امریکہ کی خانہ جنگی (1861 تا 1865)، دوسری عالمی جنگ (1939 تا 1945) اور ویت نام جنگ (1955 تا 1975) کا جائزہ لینے سے بھی اس حکمت عملی کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ جلی ہوئی زمین نامی حکمت عملی ایک فوجی اسٹریٹجی ہے جس میں دفاعی پوزیشن کا شکار ایک شخص یا گروہ ایک خاص علاقے پر قدرتی ذخائر تک دشمن کی رسائی ختم کرنے کیلئے ان ذخائر کو تباہ کر دیتا ہے۔
اس حکمت عملی کا اصل مقصد دشمن کو شدید نقصان پہنچانا اور علاقے میں اس کے اثرورسوخ اور پیشقدمی کو روکنا ہے۔ یہ حکمت عملی عام طور پر ایسے علاقے میں بروئے کار لائی جاتی ہے جہاں جنگ میں دشمن پر غلبہ پانا ناممکن ہو لہذا دفاع کرنے والی فورسز قدرتی ذخائر کی نابودی کا فیصلہ کر کے ان تک دشمن کی رسائی ختم کر دیتی ہیں۔ یہ قدرتی ذخائر ممکن ہے زرخیز کھیت، سرزمینیں، صنعتی انفرااسٹرکچر، ذرائع آمدورفت، تیل، گیس، غذائی اشیاء وغیرہ ہوں۔ ان ذخائر کی نابودی کے بعد دشمن اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے دوسرے علاقوں کی طرف جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ حکمت عملی اس علاقے کا ماحول تباہ کر دیتی ہے جس کے باعث وہاں کے لوگ اور فطرت شدید متاثر ہوتی ہے۔
غزہ میں اس منحوس حکمت عملی کے واضح اثرات
غزہ کی پٹی پر صیہونی فوجی جارحیت کے تقریباً چار ماہ بعد دنیا والوں نے دیکھا کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو غزہ میں جلی ہوئی زمین نامی حکمت عملی اپنانے کا اعتراف کر رہا ہے۔ صیہونی رژیم کے وزیر انٹیلی جنس گیلا گاملیل نے صیہونی پارلیمنٹ (کینسٹ) کے اجلاس میں اعلان کیا کہ غزہ جنگ کے بعد اس علاقے میں زندگی بسر کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو زبردستی نکال باہر کرنے کیلئے کچھ ممالک سے خفیہ مذاکرات جاری ہیں۔ صیہونی وزیر انٹیلی جنس نے کہا کہ اسرائیل غزہ کو جلی ہوئی زمین میں تبدیل کر دینے کے درپے ہے۔ اس نے کہا: "غزہ جنگ کے بعد اس علاقے کے افراد مکمل طور پر انسانی امداد کے محتاج ہوں گے اور کام کے کوئی مواقع نہیں پائے جائیں گے کیونکہ غزہ کی 60 فیصد زراعتی زمین اسرائیلی فورسز کے کنٹرول میں آ جائے گی۔"
اب جبکہ غزہ جنگ کو گیارہ ماہ گزر چکے ہیں تو وہاں انجام پانے والی فلسطینیوں کی نسل کشی صیہونی رژیم کی جانب سے اسی منحوس حکمت عملی اپنانے کا واضح ثبوت ہے۔ غزہ انتظامیہ کے سرکاری میڈیا نے اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ اب تک صیہونی حکمرانوں کی جانب سے 3 ہزار 524 قتل عام انجام پا چکے ہیں جن میں 40 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو گئے ہیں جبکہ 94 ہزار فلسطینی زخمی ہیں اور 10 ہزار سے زیادہ فلسطینی لاپتہ ہیں۔ مزید برآں، غزہ میں میڈیکل مراکز اور انفرااسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے جبکہ چند ایک اسپتال باقی بچے ہیں جو زخمیوں کے علاج میں مصروف ہیں۔ غزہ کے کل 36 اسپتالوں میں سے 34 اسپتال تباہ ہو چکے ہیں جبکہ باقی بچ جانے والے اسپتالوں میں میڈیکل سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
صیہونی فوجی جارحیت کے نتیجے میں غزہ کا 60 فیصد علاقہ پینے کے پانے سے محروم ہو چکا ہے۔ صیہونی فوجیوں نے غزہ میں 700 کنویں تباہ کر دیے ہیں جو عام شہریوں کیلئے پانی کا سرچشمہ تھے۔ غزہ کنٹونمنٹ نے اعلان کیا ہے کہ صیہونی جارحیت میں پانی فراہم کرنے والا انفرااسٹرکچر، پانی کے فلٹر، بجلی پیدا کرنے والے پاور ہاوس اور دیگر اہم انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم اب تک اہل غزہ پر 82 ہزار ٹن بارودی مواد پھینک چکی ہے جس کے باعث غزہ کے اکثر علاقے کھنڈر میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق اس وقت غزہ میں 50 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ موجود ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد ماحولیات کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ مختصر یہ کہ صیہونی رژیم نے غزہ کو مٹی کا ڈھیر بنا کر وہاں جلی ہوئی زمین کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔