تحریر: احسان شاہ ابراہیم
غاصب صیہونی حکومت کی زمینی افواج کے کمانڈر نے استعفے دے دیا ہے، ان کا استعفیٰ فوج اور انتہا پسند صیہونیوں کے درمیان اختلافات اور اندرونی اختلافات کے مزید گہرے ہونے کو ظاہر کر رہا ہے۔ صہیونی فوج نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ فوج کی زمینی افواج کے کمانڈر "تامیر یدعی" نے ذاتی وجوہات کی بنا پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ صہیونی ذرائع ابلاغ نے اس سے قبل اسرائیلی حکومت کے چیف آف جنرل اسٹاف کی جگہ تمر یدعی کو امیدوار کے طور پر نامزد کرنے کی خبر دی تھی۔ صیہونی حکومت کی فوج کے کمانڈر کے مستعفی ہونے کی خبر ایسی حالت میں شائع ہوئی ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں خبر رساں ذرائع نے بتایا ہے کہ غزہ جنگ میں زخمی صیہونی فوجیوں کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔
اس وقت صیہونی حکومت کے حکام کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں اور نیتن یاہو کی کابینہ کے سابق ارکان نے ان پر غزہ جنگ کو منظم کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا ہے۔ نیتن یاہو کی کابینہ کے سابق ارکان Gadi Eisenkot اور Benny Gantz نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی (جعلی حکومت) اپنے قیام کے بعد سے آج تک اپنی بدترین حالت میں ہے اور ہم نے جنگ کے مقاصد میں سے کوئی بھی حاصل نہیں کیا۔ Gantz اور Eysenkot کے جواب میں نیتن یاہو نے کہا ہے کہ غزہ جنگ کے مسائل میں مداخلت بند کریں۔
صیہونی حکومت کے سابق وزیر جنگ ایویگڈور لیبرمین نے بھی اس حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے ان کے طرز عمل کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کی نیتن یاہو کی مخالفت نے صیہونی قیدیوں کی رہائی کے لیے کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے امکان کو مسترد کر دیا ہے اور غزہ کے مختلف علاقوں پر وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں متعدد قیدی بھی ہلاک ہوچکے ہیں، جس کی بنیادی وجہ غزہ پٹی پر اسرائیلی حملہ تھا۔ یہ مسئلہ مقبوضہ علاقوں میں صہیونی قیدیوں کے اہل خانہ کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج کا باعث بنا ہے۔ وہ صہیونی قیدیوں کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ معاہدے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دوسری طرف نیتن یاہو، جن پر جنگ کے بعد بدعنوانی کے مختلف مقدمات چلائے جانے کا امکان ہے، اس سلسلے میں ہونے والے کسی بھی معاہدے کو روکنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ صہیونی قیدیوں کے اہل خانہ کے احتجاج کے ساتھ ساتھ مقبوضہ علاقوں میں وسیع پیمانے پر ہڑتالیں کی گئی ہیں۔ ملک گیر ہڑتال اسی وقت کی گئی، جب غزہ میں صہیونی قیدیوں کے اہل خانہ سے ہمدردی اور بینجمن نیتن یاہو کی طرف سے مقبوضہ علاقوں میں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے خلاف ایک بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے۔ اطلاعات کے مطابق بین گوریون ہوائی اڈے، پبلک ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ اور صیہونی حکومت کے اقتصادی اداروں کے مراکز پر بھی ہڑتال کی گئی۔
نیتن یاہو کو حالیہ دنوں میں متعدد اندرونی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور غزہ جنگ کے جاری رہنے کی وجہ سے وہ اور ان کی کابینہ کے ارکان عملاً عوامی شکایات سے نمٹنے کے قابل نہیں ہیں۔ صہیونی حکام بجا طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ مقبوضہ علاقوں میں حالات کبھی اتنے نازک نہیں رہے اور نہ ہی احتجاج اور ہڑتالیں اس سطح پر پہنچی ہیں۔ صیہونی حکومت کی اپوزیشن جماعتیں بھی نیتن یاہو پر کابینہ کے کام کو جاری رکھنے اور اسے گرنے سے روکنے اور حماس کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے غزہ میں جنگ جاری رکھنے کا الزام لگاتی ہیں۔
صیہونی حکام نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ غزہ کی جنگ اور 7 اکتوبر 2023 کے آپریشن کے بعد وہ فلسطینی عسکریت پسند گروہوں کی تیاری اور آپریشنل صلاحیتوں کو اس حالت میں دیکھیں گے۔ وہ اس ردعمل پر حیران و پریشان ہیں۔ صیہونی حکومت کی فوج جامع اقدامات اور امریکہ اور مغرب کی حمایت کے باوجود مزاحمت کو شکست دینے میں ناکام رہی ہے، اسے ناکامی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔ مقبوضہ علاقوں کی آج کی نازک صورت حال صیہونی حکام کی جانب سے علاقے میں مسلسل جنگ افروزی کا نتیجہ ہے، لیکن اس بار مزاحمتی گروہوں کی تیاری اور قیام نے صیہونیوں کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا ہے اور موجودہ حالات نے علاقے میں ایک گہرے اور مسلسل بحران کی شکل اختیار کر لی ہے، جس کی تمام تر ذمہ داری صیہونی حکومت اور اس کے اتحادیوں پر پڑتی ہے۔