تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر
حضرت علامہ حسن رضا غدیری ایک عالم ربانی، عالم بزرگوار، مفسر قرآن، کئی کتابوں کے مؤلف، مصنف، ہزاروں طلبہ کے ایسے استاد اور سینکڑوں ایسے تاریخی کارنامے سرانجام دینے والے کہ جب ان کے اثرات اور نتائج کو آج بھی دیکھیں اور جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا، احساس ہوگا کہ ایک فرد آیت اللہ حسن رضا غدیریؒ ایک فرد نہیں تھے، پوری ایک ملت تھے، ایک قوم تھے۔ وہ تنہا کتنے محازوں پر دشمنانِ آل محمد علیہم السلام سے لڑ رہے تھے اور پیغام محمد و ال محمد علیہم السلام دنیا تک پہنچا رہے تھے، میں سمجھتا ہوں کہ خالق کائنات کا یقیناً کوئی بھی فرمان، عمل، حکم مصلحت سے خالی نہیں ہوتا، ان کی رحلت کو تو چند دن گزر گئے، لیکن حالات تو واقعات پے در پے اس طرح تبدیل ہوتے رہے کہ ان کی تدفین کا عمل موخر ہوا، حالانکہ حکم یہی ہے کہ جتنا جلد ہوسکے تدفین کا عمل جو ہے، وہ سرانجام دیا جائے۔
زندگی بھر انہوں نے دشمنان اہلبیت خاص طور پر جنت البقیع کے جنت معلی کے مظلوم معصومین ؑکی قبور طیبہ کو شہید کرنے والوں کیخلاف علم جہاد بلند رکھا، کئی محاذوں پر انہوں نے ان مظلوموں کی قبروں کی تعمیر کیلئے کوئی جنت البقیع کے اندر کھڑے ہو کر آئمہ بقیع کے روضہ ہائے مقدسہ قبور طیبہ پر کھڑے ہو کر دشمنان محمد و ال محمد علیہم السلام سے مذاکرہ اور ان سے مناظرہ کرکے نہ صرف ان کی فکر کو تبدیل کیا بلکہ میں جانتا ہوں، ایسے کتنے بڑے بڑے ان کی اصطلاح میں متوہ عالم جو ہیں، جو صرف اس کام کے لیے کھڑے کیے جاتے تھے، کہ کوئی یہاں پر ان مظلوموں کو سلام پیش نہ کرے، ان کی زیارت نہ کرے، ایک شخص جس کا نام معاویہ تھا۔ جو اس ڈیوٹی پر مقرر تھا، صبح زیارت کیلئے گئے تو الجھ گیا، جواب نہ دے سکا، دو گھنٹے مذاکرہ ہوتا رہا، شام کو طے پایا کہ دوبارہ ہم بات کریں گے۔ عصر کے وقت جب پھر جنت البقیع کا دروازہ کھلا تو پھر دو گھنٹے اسی بات پہ انہی کی کتابوں کے حوالے دے دے کے اس کو ناک آؤٹ کیا اور یہ طے پایا کہ کل ہم پھر ملیں گے، وہ اپنے گھر چلا گیا، یہ اپنی جگہ چلے آئے۔
صبح جب آئے تو اس شخص کے یہ الفاظ تھے کہ اے شیخ تو نے یہ ساری باتیں کرکے میرا دماغ خراب کر دیا ہے، میں سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں، جو کچھ کر رہا ہوں، یہ غلط ہے یا صحیح، لیکن میں ساری رات غور و فکر کرتا رہا۔ ساری وہ کتابیں پڑھتا رہا، لیکن اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ پہلے مجھے اہلبیت علیہم السلام کی دشمنی پہ فخر تھا اور اب میں آپ سے یہ سوال کرتا ہوں، کیا میری ان گستاخیوں کے گناہوں کی جناب زہرا سلام اللہ علیہا مجھے معافی دے دیں گی، کیا مجھے معاف کر دیا جائے گا؟ کیا آپ اس بات کی ضمانت دیتے ہیں اور پھر ریکویسٹ کی کہ یہاں جنت البقیع میں نہیں، میرے دفتر میں آؤ، وہاں بیٹھ کے بات کرتے ہیں۔ تو مذاق میں کہنے لگے کہ آپ مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ کہتا نہیں، یہ عبا عمامہ اتار کے آنا بیٹھ کے باتیں کریں گے، کئی گھنٹے باتیں ہوئیں، ساتھ یہ طے پایا کہ اگر کوئی آگیا اوپر سے تو میں بیان بدل دوں گا اور کہوں گا کہ یہ ہمارے پاکستان میں دعویٰ ارشاد کے انچارج ہیں۔ چند دن جنت البقیع میں رہے، وہ شخص مکمل طور پر اس کام سے تائب ہوگیا اور کہا کہ آج کے بعد میں پوری کوشش کروں گا بلکہ مجھے اب فخر ہے کہ میں محمد و آل محمد علیہم السلام کے نوکروں میں شامل ہوگیا ہوں۔
اگلے سال جب گئے اور ٹیلی فون پہ بات ہوئی تو کہنے لگا شیخ سب سے پہلے تو میری یہ بات سن لو کہ بی بی ؑنے مجھ پہ کرم کیا ہے یا مجھے سزا دی ہے۔ مجھے دونوں پسند ہیں۔ ہوا کیا کہ میں اپاہج ہوگیا ہوں، چل نہیں سکتا۔ کھڑا نہیں ہوسکتا۔ ویل چیئر پہ ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ بی بیؑ نے مجھ پر احسان فرمایا ہے کہ میں اس قابل نہیں رہا کہ جنت البقیع چل کے جاؤں اور بی بی ؑکی قبر پہ کھڑے ہو کے زائرین کو برا بھلا کہوں اور حرام اور شرک اور بدعت کے کلمات کہوں، اس لیے میں راضی ہوں کہ اللہ نے اور بی بیؑ نے مجھے یہ انعام دیا ہے کہ میں اپاہج ہوگیا ہوں اور اس گناہ سے بچ گیا ہوں اور دوسری بات یہ یاد رکھنا زندگی موت کا پتہ نہیں روز قیامت گواہی دینا جو تیرا مذہب ہے، میرا وہی مذہب ہے، میں اسی پر مروں گا اسی پر زندگی گزاروں گا اور میری یہ درخواست ہے مکہ جا کے کیا کرنا ہے تم نے، ایک دن میں عمرہ ہو جاتا ہے۔ جتنے دن یہاں ہو تو میرے ساتھ باتیں کرو، مجھے یہ سمجھاؤ اور پھر جاتے وقت یہ کہا کہ یہاں کے کسی عالم کا مجھے ایڈریس بتا دو۔ اس کے بعد وہ مسلسل رابطہ میں رہا، تو اس پہ انہوں نے پھر ایک مقالہ بھی لکھا کہ حسن بمقابلہ معاویہ۔
وہ اس قسم کے کتنے علمی کام کیے، منصوبے بنائے، طلبہ و طالبات کی تربیت کی، بڑے بڑے محاذوں پر۔ انہوں نے ہمیشہ نہ دوست دیکھا نہ دشمن، جہاں کہیں بھی محمد و آل محمد علیہم السلام کے مذہب پہ حملہ ہوا، انہوں نے اس کا جواب دیا، منہ توڑ جواب دیا، قلم کے ذریعے، تقریر کے ذریعے، تحریر کے ذریعے، میں سمجھتا ہوں کہ ظاہری طور پر وہ یقیناً آج ہم میں نہیں ہیں، لیکن امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا یہ فرمان کہ جب تک زمانہ باقی ہے، علماء باقی ہیں، زمانہ گزرتا رہے گا، یہ زندہ رہیں گے، کتابوں کی صورت میں۔ تبلیغ کی صورت میں۔ لوگوں کی تربیت کی صورت میں۔ دشمنان محمد و آل محمد علیہم السلام کے ساتھ دین اسلام اور مذہب حق کے دفاع کی صورت میں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جو وہ صدقہ خیرات چھوڑ کے گئے ہیں، ان کی وصیت کے مطابق ان کے فرزند ارجمند علامہ ہاشم رضا غدیری نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ یہ نیک اور صالح عالم اولاد جو ہے، یہ بھی صدقہ جاریہ ہے۔ ان کی تالیفات کتابیں وہ بھی صدقہ جاریہ ہیں۔
حضرت رسول اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ اگر کوئی کاغذ کے ٹکڑے پہ میرے بھائی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل میں سے ایک فضیلت لکھ دے، جب تک وہ فضیلت لکھی رہے گی، اس کے درجات بلند ہوتے رہیں گے، اس کے گناہ معاف ہوتے رہیں گے، اور جب روز قیامت آئے گا، وہ کاغذ کا ٹکڑا کہ جس پہ میرے بھائی علی علیہ السلام کے فضائل یا ایک فضیلت لکھی ہے، اس لکھنے والے اور جہنم کے شعلوں کے درمیان وہ دیوار بن کے کھڑا ہو جائے گا، جہنم کے شعلے اس تک نہیں پہنچ پائیں گے، تو یہ تو ایک فضیلت کا اجر ہے۔ جس نے صحیفہ پنجتن پاک لکھا، جس نے تفسیر نمونہ کا ترجمہ کیا، جس نے بیسیوں کتابیں لکھیں، اس کا ایک ایک ورق جو ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ان کی بلندی درجات کا ضامن ہے۔ یقینا ًآئندہ آنیوالی نسلیں ان کے ان کلمی جو آثار چھوڑ کے گئے ہیں یا فکری آثار چھوڑ کے گئے ہیں، اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔
ایک سال بیمار ہوگئے تو مجھے کہنے لگے کہ میں اس سال عشرہ محرم کی مجالس سے خطاب نہیں کروں گا تو میں نے عرض کی کہ نہیں میرے بھائی گھر میں بچوں کو بٹھا کے فرزند زہرا علیہ السلام کی عزاداری کے چند جملے بیان کر دو، عزاداری نہیں چھوڑنی، مجلس نہیں چھوڑنی، ہر صورت میں یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے، آپ کو دنیا کا لالچ نہیں لیکن یہ سوچ ٹھیک نہیں۔ ہاں تو میں استخارہ کروں گا، استخارہ کیا تو رو کے مجھے فون کر رہے ہیں کہ استخارہ آیا ہے۔ کیا تو متکبر ہے یا عالین میں سے ہے۔ تو یہ سوچ کے میں کانپ بھی گیا اور زاروقطار رونے بھی لگ گیا اور عہد کیا کہ جب تک زندگی نے ساتھ دیا، فرزند زہرا علیہ السلام کا ذکر مصائب ضرور بیان کرتا رہوں گا۔
وہ ایک ذاکر اہل بیت علیہم السلام بھی تھے۔ وہ ایک مبلغ بھی تھے۔ وہ ایک مناظر بھی تھے۔ انہوں نے عربی، فارسی، انگریزی اور اردو میں کتابیں لکھیں اور پھر اشعار کی صورت میں حضرت امام رضا علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمان ہے کہ جس کسی نے ہمارے جتنے مظلوم کے غم میں ایک مصرع ایک بیت لکھا، نوحے کا اور وہ سن کے 50 لوگوں کی آنکھوں سے آنسو گئے، اس پہ جنت واجب ہو جائے گی۔ فرمایا نہیں 50 زیادہ ہیں 40 لوگوں کی آنکھوں سے پھر فرمایا 40 زیادہ ہیں 30 پھر فرمایا 20 پھر فرمایا 10 پھر فرمایا نہیں یہ بھی زیادہ ہے۔ وہ مرثیہ کا وہ ایک بند پڑھیں اور ایک فرد رو دے تب بھی جنت واجب ہو جائے گی۔ پھر امامؑ فرماتے ہیں نہیں یہ بھی زیادہ ہے خود پڑھے اور خود رو دے، اس پہ جنت واجب ہو جائے گی۔
تو یہ وہ شخص ہے کہ جس نے اشعار بھی لکھے، جس نے قصائد بھی لکھے، جس نے مرثیے بھی لکھے، جس نے قلمی میدان میں اور پھر سب سے مشکل ترین جو ذمہ داری نبھائی منصب قضا تھا، کرسی قضا پہ بیٹھ کر حق و باطل کے فیصلے تعلیمات محمد و ال محمد علیہم السلام کی روشنی میں، دین مبین اسلام کے مطابق فیصلے کرنا، مشکل ترین مرحلہ ہے۔ بڑا پریشر ہوتا ہے قاضیوں پر ججوں پر۔ بڑے سفارشی طاقتور لوگ لیکن مجھے یاد ہے کہ ایران زہدان میں وہاں کے ایک شخصیت تھی، بہت بڑی نام نہیں لینا چاہتا، کسی کی فیور کی کہ اس کو تھوڑی سی رعایت دے دی جائے۔ کہا قطعاً نہیں ہوسکتا، جو عدل کا تقاضہ ہوگا، وہ پورا کروں گا۔ مخالفت شروع ہوگئی، مسند قضا چھوڑ دی، لیکن اس کے دباؤ میں نہیں آئے، اس کی مرضی کو سامنے نہیں رکھا۔
محمد و آل محمد علیہم السلام کی مرضی کو سامنے رکھا، اپ کے درمیان کئی سال انہوں نے وقت گزارا، میں سمجھتا ہوں کہ اس ماحول میں بیٹھ کر ان کی کتابیں، ان کی تحریریں، ان کے کلمات ان کے مختلف مخلوق خدا کے فیملی میٹر کے مسائل ہو اور دوسرے معاملات میں دن رات مصروف رہنا یہ کوئی معمولی کام نہیں۔ بہت سے علماء ہیں یقیناً بڑی بڑی مہارت کے حامل ہیں۔ بڑے علماء فقہا کے اجازے ان کے پاس ہیں، لیکن ان اجازوں پر عمل کرکے بیٹھ کر مومنین اور مخلوق خدا کو دین کی روشنی میں رہنمائی دے کر فیصلہ دینا اور ان کی مشکل کو حل کرنا یہ علامہ حسن رضا غدیری علیہ الرحمہ کا ایک خصوصی امتیاز تھا کہ وہ یہ جنگ لڑتے رہے، یقیناً آج وہ ہم میں نہیں، لیکن جب تک زمانہ ہے، وہ رہیں گے، ان کی کتابیں رہیں گی، ان کے خطبہ خطبات رہیں گے، ان کی تقاریر رہیں گی، ان کے شاگرد رہیں گے، ایک صدقہ جاری ہے۔
یقیناً حضرت علامہ حسن رضا غدیری علیہ الرحمہ ایک امت تھے، ایک فرد نہیں تھے، ان کے جو کارہائے خیر ہیں، وہ پوری دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کے جانے کے چند دنوں کے بعد پتہ چلے گا کہ کتنی بیوگان، یتیم، مساکین کہ جن کی وہ مدد کیا کرتے تھے اور آپ کو علم نہیں وہ آہستہ آہستہ نمایاں ہوں گے، لیکن ایسے مفلوق الحال لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے، یقینا میں سمجھتا ہوں، ان کا خلاء کبھی پر نہیں ہوگا۔ حدیث بھی ہے کہ جب ایک عالم کی وفات ہوتی ہے تو ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے، جس خلا کو پھر دنیا کی کوئی چیز پر نہیں کرسکتی۔ بندہ ناچیز نے بڑے بڑے محاذوں پہ بڑے بڑے اداروں میں بیٹھ کر قانون سازی کی، لیکن جب کبھی کوئی مشکل درپیش آتی تو ان سے پہلے میرے برادر بزرگوار علامہ محمد عباس قمی صاحب مرحوم تھے، ان سے رہنمائی لیتا۔
ان کے جانے کے بعد ان سے فون پے بات کرکے رہنمائی لیتا۔ ان دونوں بزرگوں کے چلے جانے سے یقیناً میں جو خلا محسوس کر رہا ہوں کہ دشمن سے ٹکرانے کیلئے دشمن کیساتھ جنگ کرنے کیلئے کتنے میرے محسن جو ہیں، وہ دنیا سے چلے گئے ہیں، یقینا نظام چلتا رہتا ہے، شخصیات بدلتی رہتی ہیں، انہوں نے زندگی بھر جنت البقیع کے مظلوموں کا دن منایا، تحریکیں چلائیں، عالمی اداروں میں آواز اٹھائی۔ آج میں سمجھتا ہوں کہ یہ خوش نصیبی ہے، کتنی قبرستانوں میں رابطہ کیا گیا، وہاں جگہ مل جائے، کہیں بھی کوئی نہ کوئی چیز معنی ہو جاتی اور جگہ ملی تو جنت البقیع میں قبرستان کا نام ہی جنت البقیع ہے اور پھر جو جگہ ملی داخل ہوتے ہی سب سے پہلے کوئی بھی زائر اس قبرستان میں جائے گا تو سب سے پہلے غدیری صاحب کی قبر پہ اس کے قدم رکیں گے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کی خدمات کا صلہ ہے جو محمد و آل محمد علیہم السلام نے ان کو عطا فرمایا ہے۔