Tuesday 20 Aug 2024 21:36
تحریر: سید منیر حسین گیلانی
گزشتہ دِنوں خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران لاہور میں مختلف مکاتب فکر کے علماء اور جماعتوں کے رہنماؤں کیساتھ حماس کے عظیم رہنماء اسماعیل ہنیہ شہید کی یاد میں تعزیتی ریفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ طویل عرصے بعد خانہ فرہنگ ایران آمد میرے لئے حیران کن تجربہ تھا۔ یہاں شہید صادق گنجی سے دوستی اور ان کی شہادت کا واقعہ میرے سامنے فلم کی طرح گھومنے لگا اور شہید کا ہنستا مسکراتا چہرہ مجھے بہت کچھ یاد دلانے لگا۔ ڈی جی خانہ فرہنگ ایران لاہور ڈاکٹر اصغر مسعودی اور دیگر مقررین نے حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کی شہادت پر اظہار خیال کرتے ہوئے شہید اسماعیل ہنیہ کی جرأت و بہادری کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ سب کا اتفاق تھا کہ رہنماؤں کی شہادت فلسطین کی آزادی میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔
اسماعیل ہنیہ جنوری 1962ء میں پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اقوام متحدہ کے زیر انتظام مقامی سکول میں حاصل کی۔ اسلامیہ یونیورسٹی غزہ سے عربی ادب میں ڈگری مکمل کی۔ زمانہ طالب علمی سے لیکر شہادت تک وہ فلسطین کی آزادی کی تڑپ لئے سیاسی میدان کے مجاہد رہے۔ اسماعیل ہنیہ حماس کے روحانی رہنماء شیخ احمد یاسین شہید کے نظریات سے بہت متاثر تھے۔ حماس کے عسکری ونگ میں شامل ہوئے۔ تین باراسرائیلی قید میں بھی رہے، لبنان میں جلا وطن کر دیئے گئے۔ 2006ء سے 2014ء تک فلسطین کے وزیراعظم رہے۔2017ء سے اپنی شہادت تک سیاسی بیورو کے سربراہ رہے۔
شہید اسماعیل ہنیہ عظیم لیڈر تھے، جنہوں نے نہ صرف اپنی جان، بلکہ بیٹوں اور پوتوں سمیت اپنے خاندان کے 70 سے زائد افراد کی قربانی پیش کر دی، لیکن کسی موقع پر بھی ان کے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ بلاشبہ اُن کی شہادت تحریک آزادی فلسطین کو بین الاقوامی سطح پر مزید مضبوط کر گئی ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی31 جولائی 2024ء کو تہران میں شہادت کے بعد ایک مجاہد شخصیت یحییٰ سنوار کو حماس کا سیاسی سربراہ بنایا گیا ہے، جس نے 22 سال اسرائیلی قید میں گزارے۔ انہیں 7 اکتوبر 2023ء کے اسرائیل پر ہونیوالے حملوں کا ’منصوبہ ساز‘ بھی قرار دیا جاتا ہے، جبکہ امریکہ اور یورپی ممالک اُنہیں دہشت گرد بھی قرار دے چکے ہیں۔ توقع ہے کہ وہ حماس کو فیصلہ کن مرحلے کے تقاضوں کے مطابق چلائیں گے۔
اگر ہم فلسطین کی تحریک آزادی پر نظر دوڑائیں تو آج سے کوئی سات دہائیاں پہلے جب برطانوی سامراج کا سورج غروب ہونا شروع ہوا تو سیاہ و سفید کے مالک سامراجی حکمرانوں نے اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کیا تو اس خطے میں سامراج نے اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کیلئے فلسطینیوں سے ان کی سرزمین چھین کر صیہونی حکومت تشکیل دی۔ سامراجی ایجنڈے کے تحت فلسطینی سرزمین کے مالکوں کو نکال کر اپنی حکومت اور اپنے تسلط کو ظلم و جبر سے مسلط کر دیا تو اسی دن سے فلسطینی عوام نے آزادی کیلئے اپنی جدوجہد شروع کردی۔ یاسر عرفات، شیخ احمد یاسین اور حماس کی لیڈرشپ نے جدوجہد جاری رکھی۔ 7 اکتوبر 2023 ء سے اب تک 10 ماہ کا عرصہ گزر چکا، 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی حکومت سمجھتی تھی کہ چند دِنوں میں ہی حماس کا خاتمہ کرکے غزہ کو اسرائیلی ریاست کا حصہ بنا لے گی، مگر اب تک اسرائیلی اور امریکی چالیں ناکام ہیں۔ اِس سے پہلے بھی عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگوں میں اردن کا مغربی کنارہ بشمول بیت المقدس، جولان کی پہاڑیاں اور صحراء سینا پر قبضہ کر لیا گیا۔ اسرائیلی صیہونی ریاست نے ان علاقوں کو اپنی مملکت کو وسعت دے کر ان حصوں کو اپنا اٹوٹ انگ بنا لیا۔ بین الاقوامی قوتوں، جن میں امریکہ اور برطانوی سامراج نے صحراء سینا کا کچھ حصہ مصر کو واپس دلوا دیا اور اردن کے مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کو محدود حکومت بنانے کا اختیار دیا گیا، جس کی سربراہی محمود عباس کو دے دی گئی۔
فلسطینی نوجوانوں نے قربانیاں دیتے ہوئے حماس کی قیادت کی پشت پناہی میں 10 ماہ سے اپنی مسلح جدوجہد شروع کر رکھی ہے۔ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی حماس کو ختم کر کے غزہ کو اسرائیل کا حصہ بنانے کی شیطانی خواہش کامیاب نہیں ہو سکی، بلکہ حماس خطے کی ایک بڑی قوت بن کر سامنے آ چکی ہے، جس میں بلا شبہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کی ہم خیال عسکری قوتوں حزب اللہ لبنان، انصار اللہ یمن،عراق اور شام کی مزاحمتی تحریکوں کی دلیرانہ حمایت نے بڑی بڑی طاقتوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے، خطے سے نکلنے میں ہی ان کی عافیت ہوگی۔
ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران کے اندر شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں ولی امرالمسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اِس سانحہ کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ پوری دنیا میں فلسطین ایک سلگتا ہوا ایشو ہے، جس سے دنیا کی کوئی طاقت چشم پوشی نہیں کر سکتی۔ اسرائیل نے ایران کی خود مختاری، سلامتی اور جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شریک اسماعیل ہنیہ کو تہران میں شہید کیا۔ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے پاسدارانِ انقلاب اور حکومت کو شدید ردعمل اور بدلہ لینے کے اقدامات کا حکم دیا ہے۔
اب اسرائیل کو بچانے کیلئے پورا عالم ِ کفر میدان میں اُتر آیا ہے جبکہ ایران تنہاء کھڑا ہے۔ امریکہ اپنی جدید دفاعی ٹیکنالوجی سے لیس بحری بیڑے اور ایٹمی آبدوزیں ’بحر احمر‘ میں پہنچا چکا ہے، جبکہ برطانیہ جرمنی اور فرانس بھی اسرائیل کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس امریکہ جیسا جدید اسلحہ اور ایٹمی قوت تو نہیں،لیکن ایرانی حکومت اور رہبر معظم کا ایمان ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کو ’ابرہا‘کی طرح ’ابابیلوں‘ سے شکست ہوگی۔ اسی طرح کشمیر پر بھارت کا جبری تسلط بھی ختم ہوگا۔ بہت جلد بھارت کے اندر بھی آزادی کی تحریکیں سر اُٹھائیں گی۔ پھر کشمیر بھی کشمیریوں کا ہوگا۔
گزشتہ دِنوں خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران لاہور میں مختلف مکاتب فکر کے علماء اور جماعتوں کے رہنماؤں کیساتھ حماس کے عظیم رہنماء اسماعیل ہنیہ شہید کی یاد میں تعزیتی ریفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ طویل عرصے بعد خانہ فرہنگ ایران آمد میرے لئے حیران کن تجربہ تھا۔ یہاں شہید صادق گنجی سے دوستی اور ان کی شہادت کا واقعہ میرے سامنے فلم کی طرح گھومنے لگا اور شہید کا ہنستا مسکراتا چہرہ مجھے بہت کچھ یاد دلانے لگا۔ ڈی جی خانہ فرہنگ ایران لاہور ڈاکٹر اصغر مسعودی اور دیگر مقررین نے حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کی شہادت پر اظہار خیال کرتے ہوئے شہید اسماعیل ہنیہ کی جرأت و بہادری کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ سب کا اتفاق تھا کہ رہنماؤں کی شہادت فلسطین کی آزادی میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔
اسماعیل ہنیہ جنوری 1962ء میں پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اقوام متحدہ کے زیر انتظام مقامی سکول میں حاصل کی۔ اسلامیہ یونیورسٹی غزہ سے عربی ادب میں ڈگری مکمل کی۔ زمانہ طالب علمی سے لیکر شہادت تک وہ فلسطین کی آزادی کی تڑپ لئے سیاسی میدان کے مجاہد رہے۔ اسماعیل ہنیہ حماس کے روحانی رہنماء شیخ احمد یاسین شہید کے نظریات سے بہت متاثر تھے۔ حماس کے عسکری ونگ میں شامل ہوئے۔ تین باراسرائیلی قید میں بھی رہے، لبنان میں جلا وطن کر دیئے گئے۔ 2006ء سے 2014ء تک فلسطین کے وزیراعظم رہے۔2017ء سے اپنی شہادت تک سیاسی بیورو کے سربراہ رہے۔
شہید اسماعیل ہنیہ عظیم لیڈر تھے، جنہوں نے نہ صرف اپنی جان، بلکہ بیٹوں اور پوتوں سمیت اپنے خاندان کے 70 سے زائد افراد کی قربانی پیش کر دی، لیکن کسی موقع پر بھی ان کے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ بلاشبہ اُن کی شہادت تحریک آزادی فلسطین کو بین الاقوامی سطح پر مزید مضبوط کر گئی ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی31 جولائی 2024ء کو تہران میں شہادت کے بعد ایک مجاہد شخصیت یحییٰ سنوار کو حماس کا سیاسی سربراہ بنایا گیا ہے، جس نے 22 سال اسرائیلی قید میں گزارے۔ انہیں 7 اکتوبر 2023ء کے اسرائیل پر ہونیوالے حملوں کا ’منصوبہ ساز‘ بھی قرار دیا جاتا ہے، جبکہ امریکہ اور یورپی ممالک اُنہیں دہشت گرد بھی قرار دے چکے ہیں۔ توقع ہے کہ وہ حماس کو فیصلہ کن مرحلے کے تقاضوں کے مطابق چلائیں گے۔
اگر ہم فلسطین کی تحریک آزادی پر نظر دوڑائیں تو آج سے کوئی سات دہائیاں پہلے جب برطانوی سامراج کا سورج غروب ہونا شروع ہوا تو سیاہ و سفید کے مالک سامراجی حکمرانوں نے اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کیا تو اس خطے میں سامراج نے اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کیلئے فلسطینیوں سے ان کی سرزمین چھین کر صیہونی حکومت تشکیل دی۔ سامراجی ایجنڈے کے تحت فلسطینی سرزمین کے مالکوں کو نکال کر اپنی حکومت اور اپنے تسلط کو ظلم و جبر سے مسلط کر دیا تو اسی دن سے فلسطینی عوام نے آزادی کیلئے اپنی جدوجہد شروع کردی۔ یاسر عرفات، شیخ احمد یاسین اور حماس کی لیڈرشپ نے جدوجہد جاری رکھی۔ 7 اکتوبر 2023 ء سے اب تک 10 ماہ کا عرصہ گزر چکا، 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی حکومت سمجھتی تھی کہ چند دِنوں میں ہی حماس کا خاتمہ کرکے غزہ کو اسرائیلی ریاست کا حصہ بنا لے گی، مگر اب تک اسرائیلی اور امریکی چالیں ناکام ہیں۔ اِس سے پہلے بھی عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگوں میں اردن کا مغربی کنارہ بشمول بیت المقدس، جولان کی پہاڑیاں اور صحراء سینا پر قبضہ کر لیا گیا۔ اسرائیلی صیہونی ریاست نے ان علاقوں کو اپنی مملکت کو وسعت دے کر ان حصوں کو اپنا اٹوٹ انگ بنا لیا۔ بین الاقوامی قوتوں، جن میں امریکہ اور برطانوی سامراج نے صحراء سینا کا کچھ حصہ مصر کو واپس دلوا دیا اور اردن کے مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کو محدود حکومت بنانے کا اختیار دیا گیا، جس کی سربراہی محمود عباس کو دے دی گئی۔
فلسطینی نوجوانوں نے قربانیاں دیتے ہوئے حماس کی قیادت کی پشت پناہی میں 10 ماہ سے اپنی مسلح جدوجہد شروع کر رکھی ہے۔ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی حماس کو ختم کر کے غزہ کو اسرائیل کا حصہ بنانے کی شیطانی خواہش کامیاب نہیں ہو سکی، بلکہ حماس خطے کی ایک بڑی قوت بن کر سامنے آ چکی ہے، جس میں بلا شبہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کی ہم خیال عسکری قوتوں حزب اللہ لبنان، انصار اللہ یمن،عراق اور شام کی مزاحمتی تحریکوں کی دلیرانہ حمایت نے بڑی بڑی طاقتوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے، خطے سے نکلنے میں ہی ان کی عافیت ہوگی۔
ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران کے اندر شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں ولی امرالمسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اِس سانحہ کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ پوری دنیا میں فلسطین ایک سلگتا ہوا ایشو ہے، جس سے دنیا کی کوئی طاقت چشم پوشی نہیں کر سکتی۔ اسرائیل نے ایران کی خود مختاری، سلامتی اور جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شریک اسماعیل ہنیہ کو تہران میں شہید کیا۔ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے پاسدارانِ انقلاب اور حکومت کو شدید ردعمل اور بدلہ لینے کے اقدامات کا حکم دیا ہے۔
اب اسرائیل کو بچانے کیلئے پورا عالم ِ کفر میدان میں اُتر آیا ہے جبکہ ایران تنہاء کھڑا ہے۔ امریکہ اپنی جدید دفاعی ٹیکنالوجی سے لیس بحری بیڑے اور ایٹمی آبدوزیں ’بحر احمر‘ میں پہنچا چکا ہے، جبکہ برطانیہ جرمنی اور فرانس بھی اسرائیل کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس امریکہ جیسا جدید اسلحہ اور ایٹمی قوت تو نہیں،لیکن ایرانی حکومت اور رہبر معظم کا ایمان ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کو ’ابرہا‘کی طرح ’ابابیلوں‘ سے شکست ہوگی۔ اسی طرح کشمیر پر بھارت کا جبری تسلط بھی ختم ہوگا۔ بہت جلد بھارت کے اندر بھی آزادی کی تحریکیں سر اُٹھائیں گی۔ پھر کشمیر بھی کشمیریوں کا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 1155064
منتخب
25 Nov 2024
24 Nov 2024
23 Nov 2024
23 Nov 2024
23 Nov 2024
23 Nov 2024
22 Nov 2024