1
Sunday 18 Aug 2024 22:44

ایران کا انتقام اور خطے کی بدلتی مساواتیں

ایران کا انتقام اور خطے کی بدلتی مساواتیں
تحریر: شاہر الشہیر (چین یونیورسٹی کے پروفیسر تعلقات عامہ)
 
خطہ تناو، عدم استحکام اور جنگ کے آتشین گولوں کی ممکنہ برسات جیسی فضا کی لپیٹ میں ہے جو خطے کے اکثر ممالک کو متاثر کر رہی ہے جن میں ایسے جانے پہچانے ممالک بھی شامل ہیں جو صیہونی رژیم کے خلاف اعلانیہ جنگ میں داخل ہونے سے روکنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ اسلامی مزاحمتی بلاک نے منطقی سیاست اپنا رکھی ہے اور وہ جنگ کے درپے نہیں ہے جبکہ دوسری طرف مراعات حاصل کر کے فتح حاصل کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ وہ جانتا ہے کہ صیہونی رژیم سے براہ راست ٹکراو دیگر ممالک کیلئے بھی اس علاقائی ٹکراو میں شامل ہونے کا زمینہ ہموار کر دے گا۔ بحران کا شکار صیہونی رژیم جو غزہ جنگ سے پہلے اعلان کردہ اہداف کے حصول میں اسٹریٹجک شکست کے باعث شدید سرگردانی کی شکار ہے وہ واحد فریق ہے جو غزہ جنگ میں امریکہ کی شمولیت اور اس کے پھیلاو کی خواہاں ہے۔
 
موجودہ حالات میں سرفہرست صیہونی رژیم کی جانب سے ایران کے خلاف اشتعال انگیز اقدامات کی انجام دہی ہے۔ خاص طور پر یہ کہ آج ایران صیہونی رژیم کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے اور براہ راست اس کے سامنے کھڑا ہے۔ حماس کے سیاسی شعبے کے سابق سربراہ شہید اسماعیل ہنیہ کی تہران میں ٹارگٹ کلنگ کو بے جواب نہیں چھوڑا جا سکتا خاص طور پر یہ کہ صیہونی حکمران ہر حالت میں اسلامی مزاحمت کے اعلی سطحی رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ایران میں جو ٹارگٹ کلنگ انجام پائی ہے اس کا تعلق صرف تہران سے نہیں ہے بلکہ وہ پورے اسلامی مزاحمتی بلاک کیلئے ایک پیغام ہے۔ اسلامی مزاحمت کی جانب سے ایک ہی وقت مل کر جوابی کاروائی انجام دینا بھی غیر متوقع اور ناقابل تصور ہے خاص طور پر یہ کہ ایران بذات خود اس کا جواب دینے کی طاقت رکھتا ہے لہذا وہ اپنے لائحہ عمل کے مطابق اقدام کرے گا۔
 
ایران کی حتمی جوابی کاروائی کی نوعیت اور وقت کے بارے میں ابہام نے صیہونی رژیم کی معیشت پر کاری ضرب لگائی ہے اور صیہونی آبادکار ہر رات صبح تک خوف کے عالم میں بسر کرتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ایران کا انتقام اسلامی مزاحمت کیلئے بہت سے مثبت نکات کا حامل ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کے بیانات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ایران کی جوابی کاروائی حتمی ہے اور کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایران کو اس جوابی کاروائی سے روکے۔ کیونکہ یہ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں اس کے مسلمہ حقوق کا حصہ ہے۔ ایران کی حکمت عملی بہت پیچیدہ اور عالمی قوانین کے عین مطابق ہے اور اس نے یہ تاکید کر رکھی ہے کہ اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل انصاف برپا کرنے میں کامیاب ہو جائے اور غاصب صیہونی رژیم کو مجرمانہ اقدامات دہرانے سے باز رکھ لے تو وہ جوابی کاروائی انجام نہیں دے گا۔
 
صیہونی رژیم کی جانب سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی سب سے پہلے امریکہ کی توہین ہے۔ خاص طور پر یہ کہ امریکہ نے دنیا کے مختلف حصوں میں جاری اپنی فعالیت اور سرگرمیوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کو بنیاد بنا رکھا ہے اور وہ دنیا والوں پر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ بدستور ان کی حفاظت کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ صیہونی رژیم نے اپنی تشکیل کے آغاز سے ہی عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور اب وہ اس غلط عقیدے کا مالک بن چکا ہے کہ اسے ایسا ہی ہونا چاہئے اور ایسا ہی باقی رہنا چاہئے۔ شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ ہم صیہونی رژیم کی جنگی کابینہ میں اختلافات کے تصور کا دوبارہ جائزہ لیں۔ جو کچھ انجام پایا ہے وہ صرف اور صرف اس سیکورٹی پلان کا نتیجہ ہے جو صیہونی رژیم کے سیکورٹی اداروں کے ذریعے انجام پا رہا ہے اور صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اس کا پیش کرنے والا ہے۔
 
ایران کا انتقام حتمی ہے
اسلامی جمہوریہ ایران ہر گز اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی کو معاف نہیں کرے گا اور اپنے مہمان کے خون کا بدلہ لے کر رہے گا۔ دوسری طرف خطے کے موجودہ حالات میں امریکہ کی پالیسی صیہونی رژیم کی بھرپور حمایت اور اس کے دفاع پر مبنی ہے لیکن وہ کبھی بھی حملہ ور پر حملہ نہیں کرے گا خاص طور پر یہ کہ اس نے یوکرین جنگ جیسی پراکسی وار کو اپنی پہلی ترجیح بنا رکھا ہے۔ خطے میں صیہونی رژیم کا اثرورسوخ کم ہو چکا ہے اور "ناقابل شکست فوج" کا افسانہ تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو چکا ہے جبکہ امریکہ بھی اب اس کی ویسی حمایت نہیں کر سکتا جیسا ماضی میں کرتا تھا۔ امریکہ صیہونی رژیم کی حفاظت کا عزم رکھتا ہے اور اسے کھونا نہیں چاہتا لہذا بظاہر جنگ بندی کے درپے ہے تاکہ یوں اپنی اور صیہونی حکمرانوں کی کمزوری پر پردہ ڈال سکے۔
 
ایران نے غزہ جنگ اور اپنے حق انتقام کے کو علیحدہ رکھا ہے۔ وہ یوں ظاہر نہیں کرنا چاہتا کہ غزہ میں جنگ بندی کا مخالف ہے لہذا اس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ فلسطینی جو فیصلہ کریں گے اسے قبول کرے گا۔ یورپی ممالک بھی پریشان ہیں خاص طور پر یہ کہ اس وقت وہ تیل اور گیس کی اپنی اکثر ضروریات مشرقی بحیرہ روم سے پوری کرتے ہیں۔ لہذا وہ بھی ایران پر اسرائیل کو جوابی کاروائی نہ دینے کیلئے دباو ڈال رہے ہیں۔ لیکن غزہ میں صیہونی جرائم سے متعلق ایران کے موقف نیز اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ خون کو خون ہی دھوتا ہے یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ کوششیں ناکام ثابت ہوں گی۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب اسرائیل پر حملہ ہوتا ہے تو مغربی دنیا "اسرائیل کے حق دفاع" کا واویلا مچاتا ہے اور جب صیہونی رژیم اسلامی مزاحمتی بلاک پر حملہ کرتی ہے تو "تناو کم کرنے" کا نعرہ لگاتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1154712
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش