تحریر: محمد علی زادہ
امریکی حکمران جو غزہ جنگ کے آغاز سے ہی امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان اختلافات پائے جانے کا دعوی کر رہے ہیں اب تہران میں شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد خود کو صیہونی رژیم کے غیر قانونی اور مجرمانہ اقدامات سے مبرا ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہیں۔ اسلامی مزاحمتی بلاک کی اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کا نیا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو امریکہ کا دورہ کر کے واپس پہنچا۔ صیہونی وزیراعظم کے امریکہ دورے کے بعد سے صیہونی رژیم کی گستاخی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور اس نے کئی ممالک میں ریاستی دہشت گردی انجام دی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نیتن یاہو نے امریکہ دورے کے دوران ان مجرمانہ اقدامات کیلئے کھلی چھٹی حاصل کر لی تھی۔
امریکی ذرائع ابلاغ کا کردار
امریکہ کے اس نئے کھیل میں امریکی ذرائع ابلاغ ڈس انفارمیشن کے ذریعے اہم کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں۔ نیوز ویب سائٹ ایکسیس نے دو امریکی عہدیداروں کے بقول دعوی کیا ہے کہ جو بائیڈن نے جمعرات یکم اگست کے دن بنجمن نیتن یاہو کو فون کر کے ان کے اقدامات پر کڑی تنقید کی اور اس سے کہا کہ امریکہ دورے کے دوران ہمارے درمیان جنگ بندی معاہدے کو یقینی بنانے کے بارے میں بات چیت ہوئی تھی لیکن تم نے تہران میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ آگے بڑھا دیا ہے۔ ایک امریکی عہدیدار نے نیوز ویب سائٹ اکسیس کو بتایا کہ جو بائیڈن نے بجمن نیتن یاہو کو خبردار کیا ہے کہ امریکہ اس بار بھی ایران کی جانب سے ممکنہ جوابی کاروائی کی صورت میں اسرائیل کا دفاع کرے گا لیکن توقع ہے کہ نیتن یاہو فوراً جنگ بندی کی کوشش کرے اور دوبارہ ایسے اقدامات انجام نہ دے جن سے خطے میں تناو بڑھ سکتا ہو۔
اکسیس نیوز ویب سائٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے دوبارہ کوئی ایسا یکطرفہ اقدام انجام دیا جس سے خطے میں تناو بڑھ گیا تو پھر اسے امریکہ سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ دوسری طرف صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے بھی ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے: "بنجمن نیتن یاہو نے جو بائیڈن سے بات چیت کے دوران امریکہ کی حمایت کو سراہا ہے لیکن ساتھ ہی اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم ہونے کے ناطے وہ سکیورٹی ضروریات کے بارے میں صرف اپنی تشخیص پر عمل کرے گا۔" نیوز ویب سائٹ ایکسیس نے جو بائیڈن اور بنجمن نیتن یاہو کے درمیان گفتگو تلخ قرار دی ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں جو بائیڈن اور اس کے اعلی سطحی مشیران اسرائیل کی جانب سے بیروت اور تہران میں انجام پائے ٹارگٹ کلنگ کے اقدامات پر شدید تشویش کا شکار ہیں۔
امریکی ڈس انفارمیشن کے اسباب
ایکسیس ویب سائٹ کا دعوی ایسے وقت سامنے آیا ہے جب تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ممکن نہیں نیتن یاہو نے دورہ امریکہ کے دوران امریکی حکام کو اپنے عزائم سے آگاہ نہ کیا ہو۔ غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک امریکی حکمرانوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کے صیہونی حکمرانوں سے اختلافات چل رہے ہیں تاکہ یوں خود کو تل ابیب کے مجرمانہ اقدامات سے مبرا ظاہر کر سکیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ عالمی رائے عامہ کے دباو سے بچنا ہے۔ عالمی سطح پر اس وقت اسرائیلی جرائم کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے امریکہ سمیت مغربی ممالک میں بھی وسیع پیمانے پر اسرائیل مخالف اور فلسطین کے حق میں عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ حتی امریکی یونیورسٹیوں میں اسرائیل کے خلاف طلبہ احتجاجی تحریک بھی جنم لے چکی ہے جسے امریکی پولیس نے بارہا طاقت کے زور پر کچلنے کی کوشش کی ہے۔ لہذا امریکی حکمران خود کو صیہونی عزائم سے بے اطلاع ظاہر کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صیہونی حکمرانوں کو انٹیلی جنس مدد فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔
اسرائیل پر دباو کم کرنے کی کوشش
امریکی ذرائع ابلاغ اپنی ڈس انفارمیشن مہم کے ذریعے نہ صرف امریکہ کو عالمی رائے عامہ کے دباو سے نجات دلانے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ اسرائیل کو بھی اس دلدل سے باہر نکالنے کیلئے کوشاں ہیں جس میں وہ بری طرح پھنس چکا ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ نیویارک ٹائمز، ڈیلی ٹیلی گراف اور چند دیگر مغربی ذرائع ابلاغ میں تہران میں شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعے کی بھی غلط رپورٹ پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کے کمرے میں چند ماہ پہلے سے ہی ایک بم نصب کیا گیا تھا جس کے دھماکے سے ان کی موت واقع ہوئی ہے۔ اس کا مقصد اسرائیل کا دامن دھو کر اس کے خلاف ایران کی ممکنہ جوابی کاروائی پر اثرانداز ہونا ہے۔ دوسری طرف سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اپنی تحقیق میں اعلان کیا ہے کہ انہیں رہائش گاہ کے باہر سے گائیڈڈ میزائل سے نشانہ بنایا گیا اور یہ دہشت گردانہ اقدام امریکہ اور اسرائیل نے انجام دیا ہے۔
خطے میں سینٹکام کمانڈر کی آمد
ایک طرف امریکی حکمران واشنگٹن اور اسرائیل کے درمیان اختلافات پائے جانے کا دعوی کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اعلی ترین سطح پر غاصب صیہونی رژیم کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی سلسلے میں مغربی ایشیا میں امریکی کمان سینٹکام کا مرکزی کمانڈر مائیکل کوریلا خطے میں آ چکا ہے۔ اس کے آنے کا مقصد تہران میں حماس کے سربراہ کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد حالات کا جائزہ لینا ہے۔ اسلامی مزاحمتی بلاک نے اسرائیل کو شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کا سخت جواب دینے کا اعلان کیا ہے لہذا امریکی حکمرانوں نے ایک بار پھر ایران کے خلاف اس فوجی اتحاد کو دوبارہ فعال کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے جو اپریل میں تشکیل دیا گیا تھا۔ کوریلا اس دورے میں مقبوضہ فلسطین اور چند خلیجی ریاستوں کا دورہ کرے گا۔ دورے کا اہم ترین حصہ اردنی حکام سے بات چیت پر مشتمل ہے۔