1
Sunday 4 Aug 2024 02:24

اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور سوشل میڈیا کے مجاہدین

اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور سوشل میڈیا کے مجاہدین
تحریر: منظوم ولایتی

ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ شہید ہوکر بارگاہِ الہیٰ میں تشریف لے گئے اور ایک جہاں کو غم زدہ کردیا۔ آپ حماس کا بین الاقوامی چہرہ تھے۔ پوری زندگی مقاومت اور مزاحمت میں گزاری۔ بیٹے، پوتے اور اب خود بھی شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوگئے۔ آپ حضرت علامہ محمد اقبالؓ کے اِس شعر کے مصداق تھے:
شہادت ہے مقصود و مطلوب مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

ایسے میں جب شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی خبر اطراف و اکنافِ عالم میں پھیلی تو مفت میں دشمن کیلئے کام کرنے والے سوشل میڈیا کے مجاہدین نے ایران کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کیا اور اپنی نفرتوں کا ہدف ایران کو قرار دیا اور ایران کی فلسطین کاز سے متعلق نیت و حکمتِ عملی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہنے لگے کہ جب مہمان کی حفاظت نہیں کرسکتے تھے تو بلایا کیوں تھا؟ اور یہ کہ کوفیوں کی پرانی عادت ہے کہ مہمان کو گھر بلاکر شہید کیا جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

دوسری طرف بعض لوگوں نے معقول بیانات بھی دیئے ہیں کہ ایسے حساس وقت میں مسانوں کو آپس میں دست و گریباں ہرگز نہیں ہونا چاہیئے بلکہ سب کا مشترکہ دشمن غاصب و  ظالم اسرائیل اور اس کے سب سے بڑا حامی امریکہ کو دشمن سمجھنا چاہیئے کہ جو غزہ میں مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے۔ اِس حوالے سے معروف کالم نگار عامر ہاشم خاکونی نے اچھا لکھا ہے۔ وہ اپنی فیس بک وال پر لکھتے ہیں کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت بڑی تکلیف دہ اور افسوسناک ہے۔ انہوں نے بے پناہ قربانیاں دیں اور اب خود ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔ یہ موت مگر وہ خواہش ہے جس کی ہم میں سے بہت سے مسلمان آرزو کرتے ہیں۔ فلسطینیوں پر مظالم کی انتہا ہوچکی۔ اللہ ان کے لئے آسانی پیدا کرے۔ یہ بات مگر سمجھ سے باہر ہے کہ میزائل حملہ اسرائیل نے کیا، اس کی مذمت کے بجائے کچھ لوگ ایران کی مذمت کیوں کر رہے ہیں۔؟

اس میں ایران کا کیا قصور؟ میزائل حملے کا کیا توڑ ہوسکتا تھا؟ ایران اپنی انقلابی تاریخ کے سب سے بڑے جرنیل قاسم سلیمانی کو جسے وہ مالک اشتر ثانی کہتے ہیں، اسے میزائل حملے سے نہ بچا سکے۔ ان کے کئی بڑے نیوکلیئر سائنس دان اپنے ملک میں مارے جاچکے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ پر میزائل حملے کی تو کسی کو توقع ہی نہیں ہوگی، کیونکہ وہ سیاسی رہنماء تھے، کوئی عسکری کمانڈر نہیں۔ مسلح تنظیموں کے بھی سیاسی رہنماوں کو کچھ نہیں کہا جاتا، تاکہ مذاکرات کا آپشن برقرار رہے۔ بزدل اور فرسٹریٹ دشمن نے مگر وار کر ڈالا۔ ایسے میں ایران پر تبرا کرنا پرلے درجے کا تعصب ہی ہوگا۔ کیا شیعہ مخالفت میں ہم اتنے اندھے ہوچکے ہیں۔؟ یہ بات سب کو پتہ ہے کہ دراصل ایسے لوگ بہانے کی تلاش میں رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی شیعوں سے متعلق اپنا گند باہر انڈیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں شیعہ دشمنی میں اسرائیل کو بھی بھول جاتے ہیں۔

ایسے لوگوں کو یہی جواب دیا جائے گا کہ منطق وہی پرانی ہے۔ اگر علیؑ عمارؓ کو جنگ میں نہ لاتا تو عمارؓ شہید نہ ہوتے، اسی طرح اگر ایران ہنیہ کو دعوت نہ دیتا تو آج ہنیہ زندہ ہوتے! ہم سب کو معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ حساس وقت ہے۔ اسرائیل نے بہ یک وقت بیروت، بغداد اور تہران میں بزدلانہ حملہ کیا اور اپنی جنایت کا برملا اعلان کیا ہے۔ ایسے وقت میں تکفیریت اور صہیونیت کا ایک ہی موقف دیکھ کر ہمیں واقعاً حیرت ہوتی ہے۔ اس وقت پوری دنیا اسرائیل کو قاتل کہہ رہی ہے، اسرائیل کے خلاف اسماعیل ہنیہ کے قتل کا پرچہ کاٹ رہی ہے۔ خود حماس بھی اپنے رسمی بیان میں اسرائیل کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دے چکی ہے۔ حتی شہید اسماعیل ہنیہ کی بیٹی نے بھی تکفیری پروپیگنڈا کا جواب دیا ہے اور ایران کو اسلام کا مرکز قرار دیا ہے۔

ایسے میں پاکستان میں تکفیریت، اسے انقلاب اسلامی ایران کے خلاف پروپیگنڈہ کا حربہ بناکر استعمال کررہی ہے، جو کہ افسوس ناک ہے۔ درحقیقت اسرائیل یہی چاہتا تھا۔ اسرائیل شہید اسماعیل ہنیہ کو قطر یا ترکیہ میں بھی شہید کرسکتا تھا، جبکہ قطر میں امریکی سب سے بڑا فوجی اڈا ہے، اسرائیل کا بھی نفوذ ہے۔ اسی طرح ترکیہ بھی اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے۔ حتی اسرائیل کی تمام فوجی مشقیں، ترکیہ میں ہوتی ہیں۔ وہاں پر اسرائیلی فوجی اڈے ہیں۔ یعنی اسرائیل کو قطر اور ترکیہ میں اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنا آسان تر تھا، لیکن اسرائیل نے اس قتل کیلئے ایرانی سرزمین کا انتخاب کیا، تاکہ اس کے ذریعے کئی اہداف حاصل کرے:

شیعہ سنی وحدت کا خاتمہ ہو۔
ایران کو ہنیہ کے قتل کا ذمہ دار قرار دے یا ایرانی نئے صدر کو اس کا ذمہ دار قرار دے۔
فلسطین اور ایران میں تعلقات کو ختم کرے۔
اس وقت اسرائیل پر حملے کے بعد، پوری دنیا آہستہ آہستہ ایران کی طرف حرکت کر رہی تھی، امریکی پابندیوں کو خاطر میں نہیں لا رہی تھی۔ 110 ممالک کے نمائندوں کے سامنے اسماعیل ہنیہ کو شہید کرکے درحقیقت ان 110 ممالک اور باقی ممالک کو پیغام بھیجا ہے کہ یہ کام تمہارے ساتھ بھی ہوسکتا تھا۔ لہذا پوری دنیا کے حکام کو ڈرا کر دوبارہ سیاسی و سفارتی طور پر ایران کو تنہا کرنا۔
حماس اور ایران کے درمیان تعلقات خراب کرانا اور حماس اور فلسطینی مقاومت کو تنہا کرنا۔
مقاومتی گروہوں میں ناامیدی ایجاد کرنا اور ان کو یہ پیغام دینا کہ جب ایران خود اپنا دفاع نہیں کرسکتا تو وہ باقی مقاومتی گروہوں کا کیسے کرسکتا ہے۔

ان تمام اہداف کو پورا کرنے کیلئے سوشل میڈیا استعمال ہو رہا ہے۔ اس میں سب سے بڑھ چڑھ کر عرب تکفیری گروہ اور پاکستانی تکفیری گروہ ہے، جو کھل کر صہیونی مدد کرنے میں مصروف ہے۔ یاد رہے کہ جو لوگ ایران کی حکمتِ عملی پر سوالات اٹھا رہے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ دوست اور دشمن سب جانتے ہیں کہ بقولِ عامر خاکوانی کے یاد رکھئے کہ یہی میزبان (ایران) ملک ہی ان مظلوموں کا سب سے بڑا حامی، سرپرست اور پشتیبان رہا ہے۔ کسی اور مسلم ملک بشمول ہمارے یہ جرات نہیں ہوئی کہ ان مظلوموں کی کھل کر مدد کرسکیں۔ اگر یہی میزبان ملک ان مظلوموں کی مدد سے ہاتھ اٹھا لیتا تو شائد کئی برس پہلے ہی مظلوم دم توڑ جاتے۔

سوشل میڈیا کے مفت میں مسلمانوں کے درمیان انتشار پھیلانے والوں کو شہید اسماعیل ہنیہ کی صاحب زادی نے اپنے ایکس پلیٹ فارم اکاونٹ پر بہترین جواب دیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے: "کس نے کہا ایران قصور وار ہے! تم عرب اپنے ملکوں میں ان کو پوچھتے تک نہیں، حالانکہ تم لوگ (قوم اور زمینی فاصلے کی نسبت) ایران سے زیادہ ہم سے نزدیک ہو! ایران تم سے زیادہ بہتر مددگار ہے، اسی لئے تمہیں حق نہیں پہنچتا کہ ایران کے بارے میں کوئی بات کرو، ایران تم سے زیادہ شرافت مند ہے، اس اعتبار سے ایران اسلام کا دارالحکومت ہے! بہرحال ‏اسماعیل ہنیہ نے جام شہادت نوش کر لیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر پاکستان اسرائیل کو دھمکی دے تو غزہ کی جنگ رک سکتی ہے۔ ایٹمی قوت پاکستان کے خلاف اپنا یہ مقدمہ لے کر وہ اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں۔ جس کے پاس جتنی طاقت ہے، اتنی جواب دہی کے لئے تیار ہوجائے۔ آخر میں سراج گلتری کا تازہ کلام کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں:

کل جو کہتے تھے خطیب برسر ممبر جاکر
قتل عمار کا پوچھو تم علی سے جاکر

گر بلاتا نہ علی جنگ میں عمار کو
شہید ہوتا نہ کبھی عمار، وہ زندہ ہوتا

شور پھر سے برپا ہے حلقہ تکفیر میں آج
قتل اسماعیل کا پوچھو تم ایران سے جاکر

گر بلاتا نہ ایران دعوت پہ اسماعیل کو
شہید ہوتا نہ کبھی اسماعیل، وہ زندہ ہوتا

منطق وہی ہے پرانی، مزاج بھی نہیں بدلا
نہ ہی بدلا ہے یہاں درہم و دینار کا رخ
خبر کا کوڈ : 1151859
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش