تحریر: سید تنویر حیدر
جنگ جہنم کا ایک ایسا دروازہ ہے، جب ایک بار یہ کھلتا ہے تو اپنے ساتھ کئی اور دروازے کھول دیتا ہے۔ اس وقت پورا مشرق وسطیٰ جہنم کے کسی ایسے ہی دروازے کے کھلنے کا منتظر ہے۔ بظاہر اس کی شروعات اسرائیل پر ایران کے کسی ممکنہ حملے سے ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ پاکستان اگرچہ مشرق وسطیٰ میں شامل نہیں ہے لیکن ایران کا ہمسایہ ہونے کے ناطے اس پر جو اثرات مرتب ہوں گے، وہ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک سے بھی زیادہ گہرے ہوں گے۔ جنگوں کے ملکوں پر اثرات بعض تو متوقع ہوتے ہیں اور بعض غیر متوقع۔پوری دنیا کی نظریں اس وقت گھڑی کی سوئیوں پر ٹکی ہوئی ہیں۔ ہر ملک اپنے اپنے دائرے میں اس جنگ کے اثرات سے نمٹنے کیلئے اپنی حکمت عملی ترتیب دینے میں لگا ہوا ہے۔
ہم شاید کبوتروں کی دنیا کے درویش ہیں، جو اپنے ہجروں میں اپنی آنکھیں موند کر کسی ریاضت میں مشغول ہیں۔ ہمارے دائیں بائیں کیا ہو رہا ہے، ہمیں اول تو اس کی خبر ہی نہیں ہے اور اگر خبر ہے تو اس سے غرض نہیں ہے۔ ہمارا میڈیا بھی ایک آنکھ والا وہ کبوتر ہے، جسے باہر کی دنیا کی کوئی خبر نہیں ہے یا اسے اس میں دلچسبی نہیں ہے۔ حالانکہ پرانے زمانے میں بین الاقوامی سطح کی پیغام رسانی کا کام کبوتر ہی انجام دیتے تھے۔ ارد گرد کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں ہمیں کسی حد تک یہ ادراک ہونا چاہیے کہ اگر اسلامی جمہوری ایران کسی جنگ میں ملوث ہوتا ہے تو ہم پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔؟
ان میں سے کچھ معاملات ایسے ہیں، جن کا اثر براہ راست ہماری رگ جاں تک آئے گا اور یہ اثر ایران پر کم اور ہم پر زیادہ پڑے گا۔ مثلاً ایک یہ کہ جنگ ایران کی ہوگی اور تیل ہمارا بند ہوگا۔ اس وقت 90 سے 95 فیصد تک ہمارے تیل کی ترسیل آبنائے ہرمز کے راستے ہوتی ہے۔ ایران پہلے ہی اعلان کرچکا ہے کہ وہ کسی بھی جنگ کی صورت میں آبنائے ہرمز کو مکمل بند کر دے گا۔ ہم جو پہلے ہی اپنے پیدا کیے ہوئے تیل کے مصنوعی بحران سے دوچار ہیں، آبنائے ہرمز کے قطع ہونے کی صورت میں کیا کریں گے؟ کیا ہم نے اس ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اور اپنا کاروبار زیست چلانے کے لیے تیل کا کچھ ذخیرہ کیا ہوا ہے یا محض تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں۔؟
ظاہر ہے کہ ہماری ترجیحات میں اس طرح کے معاملات پر سوچنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ جہاں تک گیس کا تعلق ہے، ہم اپنی گیس کی ضرورت جنگ کی حالت میں بھی ایران سے پوری کرسکتے تھے، اگر ہم نے ایران تک اپنی پائپ لائن بچھائی ہوتی۔ دوسرا اہم معاملہ اس جنگ کے حوالے سے یہ ہے کہ اس جنگ میں امریکہ اپنے اعلان کے مطابق اسرائیل کا دفاع کرے گا۔ ایران کے مقابلے کے لیے اسے علاقے میں اپنے فوجی اڈوں کی ضرورت ہے۔ نائن الیون کا زیادہ تر نزلہ جس طرح پاکستان پر گرا تھا، توقع ہے کہ اس جنگ کا نزلہ بھی پاکستان پر زیادہ گرے گا۔ امریکہ پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالے گا۔ وہ پاکستان کی رضامندی کے بغیر بھی یہاں بہت کچھ کرتا رہا ہے۔ "آپ ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں ہیں" کی دھمکی شاید ہمارے لیے ہی بنی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان جسے ہم نے اپنی سرپرستی میں لے رکھا تھا اور جس کے رہنماء ہمارے آئیڈیل اور ہمارے ہیرو تھے، ہم نے امریکہ کے ایک اشارے پر اسے تورا بورا بنا دیا تھا، اس افغانستان کے مقابلے میں ایران کی ہماری نظر میں کیا حیثیت ہے۔؟ البتہ اگر ہمارے اندر امریکہ کے خلاف جذبہء مزاحمت بیدار ہوگیا تو پھر اس جرم کی سزا کے لیے امریکہ بھارت کو استعمال کرسکتا ہے۔ بھارت خود بھی اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ یہ چند جہنم کے دروازے ہیں، جن سے ہمیں ممکنہ طور پر گزرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ بھی متوقع اور غیر متوقع مسائل کی ایک بارہ دری ہے، جو ہمارے داخلے کا انتظار کر رہی ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ فی الحال انہیں دیکھنے سے قاصر ہیں، کیونکہ ہماری آنکھیں بند ہیں، کسی کبوتر کی طرح۔