0
Monday 5 Aug 2024 23:38

اسماعیل ہانیہ کون تھے۔۔۔

اسماعیل ہانیہ کون تھے۔۔۔
رپورٹ: سید عدیل زیدی

حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو ایران گذشتہ دنوں ایران میں قاتلانہ حملے میں شہید کردیا گیا، وہ ایران کے نئے صدر مسعود پزشکیان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے۔ جس کے بعد حماس نے اسماعیل ہانیہ کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اسمٰعیل ہنیہ کو یہودی ایجنٹوں نے نشانہ بنایا، یہ حملہ بزدلانہ کارروائی ہے، جس بدلہ لیں گے۔ اس رپورٹ میں عالم اسلام کے اس مرد مجاہد کی زندگی پر روشنی ڈالی جائے گی۔ اسماعیل ہانیہ 29 جنوری 1962ء کو غزہ کے الشاتی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے، اس وقت عرب، اسرائیل جنگ جاری تھی اور یہ علاقہ مصر کے زیرِ تسلط تھا، انہوں نے ابتدائی تعلیم اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک اسکول سے حاصل کی، بعدازاں وہ 1987ء میں اسلامک یونیورسٹی غزہ سے عرب لٹریچر میں گریجویٹ کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تعلیم کے دوران اور اس کے بعد وہ مزاحمتی تحریکوں میں متحرک رہے، اسی سلسلے میں 1989ء میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور وہ تین سال جیل میں رہے۔

1992ء میں رہائی کے بعد اسرائیلی قابض حکام نے اسماعیل ہانیہ سمیت حماس کے سینئر رہنماؤں عبدالعزیز الرنتیسی، محمود ظہار، عزیز دوائیک و دیگر 400 کارکنان کو لبنان جلا وطن کردیا۔ جلاوطن کارکنان جنوبی لبنان کے مرج الظہور میں ایک سال سے زائد عرصے تک مقیم رہے، جہاں حماس کو میڈیا کی بھرپور کوریج ملی اور یہ عالمی سطح پر مقبول ہوئی۔ 1997ء میں ہانیہ حماس کے مرکزی دفتر میں بھرتی ہوئے جہاں وہ جلد ہی اونچے تنظیمی درجوں پر ترقی کرتے رہے، گمان کیا جاتا ہے کہ چونکہ وہ اس وقت کے حماس رہنماء شیخ احمد یاسین کے قریبی ساتھی تھے اس لیے انہیں حماس کے مرکزی دفتر میں عہدہ ملا۔ اسرائیلی افواج نے حماس کے بیشتر رہنماؤں کو نشانہ بنایا اور 2003ء میں اسماعیل ہانیہ بھی اسرائیل کے میزائل حملے کی زد میں آئے لیکن اس میں ان کا ہاتھ زخمی ہوا۔ دسمبر 2005ء میں اسماعیل ہانیہ کو حماس کے تنظیمی انتخابات میں ممکنہ سربراہان کی فہرست میں شامل کیا گیا اور 2016ء میں ہونے والے انتخابات میں خالد مشعل کے بعد اسماعیل ہانیہ حماس کے سربراہ بنے۔

25 جنوری 2006ء کو حماس کی تبدیلی اور اصلاحات کی فہرست میں فتح حاصل کرنے کے بعد اسماعیل ہانیہ کو 16 فروری 2006ء کو وزیراعظم کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ انہیں 20 فروری کو باضابطہ طور پر صدر محمود عباس کے سامنے پیش کیا گیا اور 29 مارچ 2006ء کو اسماعیل ہنیہ نے بطور فلسطینی وزیراعظم عہدے کا حلف اٹھایا۔ اپنے دور حکومت میں اسماعیل ہانیہ نے اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو خط بھی لکھا کہ جس میں ان کے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فلسطین کے معاملات کے حوالے سے براہ راست منتخب حکومت سے رابطہ کریں اور فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ تاہم امریکا نے اس خط پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور اسے نظرانداز کردیا گیا۔ جون 2007ء میں حریف جماعت فاتح پارٹی کے ساتھ پُرتشدد تنازع کے بعد فلسطینی صدر محمود عباس نے اسماعیل ہنیہ کو عہدے سے برطرف کردیا تاہم وہ غزہ کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرتے رہے جہاں حماس نے اپنی غیرسرکاری حکومت قائم کی تھی اور غزہ کی پٹی کے تمام انتظامی امور حماس کے کنٹرول میں تھے۔

2018ء میں اسمعایل ہانیہ کو حماس کے سربراہ کی حیثیت سے عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ 7 اکتوبر 2023ء کو جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تب اسماعیل ہنیہ ترکیہ میں موجود تھے اور انہوں نے ٹیلی ویژن پر گفتگو کرکے حماس کے حملے کی وجوہات بتائیں جن میں مسجد الاقصٰٰی اور پناہ گزینوں کو خطرات کا حوالہ دیا گیا۔ 10 اکتوبر کو انہوں نے بیان دیا کہ جب تک جنگ ختم نہیں ہوگی حماس اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہیں کرے گا، ساتھ ہی کہا کہ فلسطینی اپنی آزادی کے لیے کسی طرح کی قربانی دینے سے گریز نہیں کریں گے۔ 2 نومبر کو اسماعیل ہنیہ نے مشروط جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی اور ان کی شرائط یہ تھیں کہ اسرائیل انسانی بنیادوں پر امداد کی رسائی کو ممکن بنائے اور ساتھ ہی اقوامِ متحدہ کے دو ریاستی حل کو تسلیم کرے۔ رواں سال عیدالفطر کے موقع پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اسماعیل ہانیہ کے تین بیٹے شہید ہوگئے تھے۔ اسماعیل ہانیہ کے تینوں بیٹے ہازم، محمد اور عامر اپنی گاڑی میں جارہے تھے کہ اس دوران غزہ کے الشاتی کیمپ میں ان کی گاڑی پر اسرائیل نے بمباری کی، جس سے ان کے تینوں بیٹے شہید ہوئے تھے۔

اسرائیلی فوج کی بمباری میں اسماعیل ہانیہ کے 3 بیٹوں کے علاوہ 4 پوتے بھی شہید ہوچکے ہیں جن میں 3 لڑکے اور ایک لڑکی شامل تھی۔ 20 مئی 2024ء کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر کریم خان کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کے تحت اسماعیل ہانیہ کے ساتھ ساتھ دیگر حماس رہنماء اور اسرائیلی وزیراعظم کے لیے وارنٹ گرفتاری کی درخواست کی گئی تھی۔ ایرانی حکام نے کہا ہے کہ اسماعیل ہانیہ پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات جلد سامنے لائیں گے۔ حماس کے سینیئر ترجمان سامی ابو زہری نے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل سے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکے گا اور اب مقبوضہ بیت المقدس کو آزاد کروانے کے لیے کھلی جنگ چھڑے گی اور حماس اس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ علاوہ ازیں رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے باقاعدہ طور پر اسماعیل ہانیہ کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد سے صیہونی حکام پریشان ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس قتل پر ایران کا عملی ردعمل شدید ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 1151592
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش