تحریر: ارشاد حسین ناصر
پاکستان میں تمام تر غیر یقینی صورتحال میں الیکشن کمیشن نے صدر پاکستان کیساتھ مل کر آٹھ فروری کو عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ یاد رہے کہ الیکشن کا انعقاد اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے نوے دن کے اندر ہونا تھے، مگر الیکشن کمیشن کے بہانے اور لیت و لعل کے باعث یہ آئینی تقاضا پورا نہیں ہوسکا۔ دراصل پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے سولہ ماہ کی منفی کارکردگی اور اس کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگنا کافی مشکل تھا۔ ویسے بھی یہ چوں چوں کا مربہ تھا، جس کا "بندوبست" کیا گیا تھا۔ ان کا کوئی پاپولر بیانیہ نہیں تھا، جسے عوام میں پذیرائی ملتی، سو الیکشن تاخیر کا شکار کیے گئے۔ اب جب اعلان ہوگیا ہے تو تب بھی عوامی پذیرائی کا عالم بہت ہی خطرات دکھا رہا ہے۔ بہرحال الیکشن کی تاریخ مقرر ہونے کے بعد روایتی اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، جبکہ انتخابی حلقوں میں امیدواران کی انتخابی کارنر میٹنگز کا سلسلہ بھی تیز ہوتا دیکھا جا رہا ہے۔
سیاسی جماعتیں بے شک ہم فکر نہ بھی ہوں، ایک دوسرے کے خلاف مغلضات بکے ہوں، کیسز کیے ہوں، الزامات کی بوچھاڑ کی ہو، ایک دوسرے کو غدار کہا ہو، مل کر یعنی مشترکہ اتحادی حکومت کی ہو، انتخابات میں یہ قربتوں میں تبدیل ہوسکتے ہیں اور ان میں فاصلے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے کہ انتخابات کا اپنا ہی ماحول ہوتا ہے، اپنے ہی تقاضے ہوتے ہیں۔ اس وقت ان تقاضوں کے مطابق کام کیا جاتا ہے، اس کی واضح مثال موجود ہے، کہا بھی جن جماعتوں نے سولہ ماہ تک مشترک حکومت چلائی، اب ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں لگ چکے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف بیانات، الزامات، ایک دوسرے کے خلاف انتخابی اتحاد، جوڑ توڑ، ایک دوسرے کے مخالفین سے قربتوں میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ شاید کوئی دور تھا، جس میں نظریاتی سیاست ہوتی ہوگی کہ جس میں نظریات کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مخالفت کی جاتی ہوگی۔ نظریات کی بنیاد پر پارٹیوں کو ساتھ ملایا جاتا ہوگا، اب قطعی ایسا نہیں ہے۔
اب تو مفادات ہیں، اب تو ضروریات ہیں، جدھر سے پوری ہونے کی امید ہو، ادھر ہی سیاسی جماعت کے ڈرائیور سٹیرنگ موڑ دیتے ہیں۔ اب شخصیات کے نام لے کر کہا جاتا ہے کہ ہمارا نظریہ فلان۔۔ ہمارا ایمان فلان، ہمارا مرشد فلان۔۔ تو پھر نظریات کہاں رہ گئے، نظریات دفن ہوچکے، افسوس کہ اس سارے گند میں تمام دینی سیاسی جماعتیں جو بھی انتخابی سیاست میں وارد ہوتی ہیں، مکمل شریک رہتی ہیں۔ ان کے پاس بھی اس انتخابی سیاست میں روایتی طریقہ کار اختیار کرنے کے سوا چارہ نہیں ہوتا، سو اس بے بسی میں وہ بھی کمپرومائز ہو کر حصہ لیتی ہیں۔ پاکستان میں انتخاب قومی و صوبائی اسمبلی لڑنا اب کسی عام فرد کا کام نہیں رہا، نہ ہی کسی عام سیاسی و مذہبی جماعت کے بس کی بات رہی ہے، اس لیے کہ انتخابات میں امیدواران اور سیاسی جماعتیں واقعی پانی کی طرح پیسے بہاتے ہیں۔
عوام بھی انتخابی امیدواروں کی کارکردگی کو دیکھے بنا پیسہ پھینک تماشہ دیکھ کر اصول کے تحت اپنے ووٹ دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ بہت سے حلقوں میں ایسا ہوتا ہے کہ ووٹ خرید لیے جاتے ہیں۔ ووٹرز کو ادائیگی کی جاتی ہے، ان کے شناختی کارڈز اپنے پاس رکھ لیے جاتے ہیں، جبکہ انتخابی دنگل سے پہلے کمپین کے دوران مختلف ایریاز میں بھاری بھر کم خرچے کرکے ضروریات کی چیزیں تقسیم کی جاتی ہیں، ماضی کے انتخابات میں بہت سے امیدواران نے موٹر سائیکلز، آٹا کی بوریاں اور راشن پیکیج کے ساتھ نقد رقوم بھی تقسیم کیں، جو کہ قانونی طور پر درست نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے حلقوں یعنی لاکھوں ووٹرز تک پہنچنے، اپنا پیغام پہنچانے کیلئے روابط، جلسے، جلوس، ریلیاں، ان میں کھانے، کیٹرنگ کے اخراجات، لوگوں کو لانے کیلئے گاڑیوں کے بھاری اخراجات بھی کرنے پڑتے ہیں، جبکہ ووٹرز کیساتھ ساتھ مختلف ایریاز میں نمائندہ و موثر افراد کو ساتھ ملایا جاتا ہے۔
انکی ڈیمانڈز پوری کی جاتی ہیں، اسی طرح پبلسٹی مہم، پوسٹرز، فلیکسز، سائن بورڈز، اخبارات میں خبروں کی اشاعت، مقامی صحافیوں کی فرمائشیں بھی پوری کیا جانا ضروری خیال کیا جاتا ہے، الیکشن کمپین کے دوران تو ورکرز بھی تنخواہ بلکہ دیہاڑی پر جمع کیے جاتے ہیں، جو مختلف قسم کے امور سرانجام دیتے ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ انتخابات میں مختلف خیال طبقات کے موثر لوگوں کو ساتھ ملایا جاتا ہے، جن میں مذہبی طبقات، علماء، مشائخ، پیر، گدی نشین بھی قیمت لگواتے ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی انتخابات میں فعال ہو جاتی ہیں اور اپنے وجود کا اظہار کرتی ہیں، تاکہ انہیں کوئی بھول نہ جائے۔ روایتی طور پر جو پارٹی حکومت میں ہوتی ہے اور تازہ اقتدار چھوڑ کر آتی ہے، مسند نگرانوں کے سپرد کرتی ہے، اس کے پاس حکومتی وسائل، حکومتی عہدیداران، انتظامیہ اور دیگر موثر لوگوں کی مدد حاصل ہوتی ہے۔
ایسا بھی ہم دیکھتے ہیں کہ الیکشن سے قبل بہت سے منصوبوں کا آغاز کر دیا جاتا ہے، جن کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی طرح بر سر اقتدار رہ کر اپنی مرضی کے انتظامی افسران بھی تعینات کرکے جاتے ہیں، جس سے انہیں الیکشن میں مدد ملنا ہوتی ہے، مگر کئی ایک بار اس کے الٹ بھی ہو جاتا ہے کہ نگران سیٹ اپ بھی آتے ہی افسران کی اکھاڑ پچھاڑ کر دیتے ہیں اور اپنی من مانیاں کرتے ہیں، اس لیے کہ یہ ان کا اختیار ہوتا ہے۔ ایک بات جس کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا جاتا، نہ ہی اپنی شکست کو قبول کرکے جیتنے والے کو مبارکباد دی جاتی ہے بلکہ ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے۔ ہم عدالت میں جائیں گے، ہم نتائج کو قبول نہیں کرتے، کبھی جھرلو پھرنے کی بات کی جاتی ہے تو کبھی آر ٹی ایس بیٹھنے کا ذکر ہوتا ہے، کبھی جیت کو ہار میں بدلنے، نتائج میں تاخیر، گنتی میں تبدیلی، کبھی سلیکشن کے طعنے دیئے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ چلتا آرہا ہے اور اس کیساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ الیکشن سے قبل ہی دھاندلی کا راگ الاپنا شروع ہو جاتے ہیں، اس وقت بھی ایک نیا راگ الاپا جا رہا ہے، اب کی بار لیول پلیئنگ فیلڈ کا تاذکرہ شام و سحر ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء کہتے دیکھے جا رہے ہیں کہ نون لیگ کو لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا کی گئی ہے، یعنی نون لیگ کو مقتدر قوتوں کی جانب سے ہری جھنڈی دکھا کر کھل کھیلنے کا موقعہ فراہم کیا گیا ہے۔ ویسے یہ ہر ایک کو نظر آرہا ہے کہ ایک بندہ جو جیل سے نکل کر بیماری کے بہانے بیرون ملک گیا تھا، چار سال تک بھاگے رہنے والے شخص کو واپس لا کر تمام مقدمات سے بری کرتے ہوئے وزیراعظم کا پروٹو کول دیا جا رہا ہے، جبکہ اسے جیل میں ہونا چاہیئے تھا، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف صوبوں میں جا کر الیکٹیبلز سے ملایا جا رہا ہے، پارٹیوں میں شمولیتیں اور اکھاڑ پچھاڑ چل رہی ہے۔ اس ساری صورت حال مین الیکشن کا ہونا یا نہ ہونا ایک جیسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ اگر انہی لوگوں کے حوالے ملک ہونا ہے تو پھر الیکشن پر بھاری رقوم خرچ کرنے اور اتنی زحمات اٹھانے کی کیا ضرورت ہے، ایک بھائی نے اقتدار کی مسند کو چھوڑا ہے، دوسرے کے حوالے کر دیتے، درمیان میں نگرانوں کو بھی خواہ مخواہ زحمت دی۔
بہرحال پاکستان میں آخری دم تک کچھ بھی ہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ شاید ایسا نہ ہو جائے، شاید یہ نہ ہو جائے، یہ چلتا رہتا ہے، دیکھتے ہیں الیکشن کی بیل منڈھے چڑھتی ہے یا نہیں، اگر چڑھتی ہے تو کیا نتیجہ دیتی ہے، کھیل روز بروز دلچسپ مرحلے میں داخل ہوتا دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان کی عوامی پذیرائی کا یہ عالم ہے کہ جب نون لیگ نے اپنے پیج سے سروے کروایا تو اس میں بھی بھاری مینڈیٹ عمران خان کو ہی ملا، جس کے بعد اسے ڈیلیٹ کر دیا گیا، جبکہ کئی قومی اور عالمی فورمز کے سروے بھی یہی بتاتے ہیں کہ عوام میں سب سے زیادہ مقبولیت پی ٹی آئی اور اس کے اسیر چیئرمین کے پاس ہے۔ ایسے میں لندن سے بلا کر، استقبال کروا کر اقتدار کے راستے دکھانے والے لاڈلے کو کیسے تاج پہنایا جاتا ہے، واقعی بڑا کمال ہوگا۔