تحریر: محمد ثقلین واحدی
Msaqlain1412@gmail.com
چار جون اس شخصیت کی برسی کا دن ہے، جن کے نام کے بغیر ایران کے اسلامی انقلاب کی کوئی پہچان نہیں ہے۔ جی ہاں امام خمینی نے ایران کی اڑھائی ہزار سالہ شہنشائیت کا خاتمہ کیا، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے بعد انہوں نے مشرق و مغرب کی سپر پاورز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کا لایا ہوا انقلاب آج بھی عالمی مستکبرین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا ہے۔ امام خمینی کی انقلابی فکر نے جہاں ایران کو نجات بخشی، وہیں پوری دنیا میں اسلامی تحریکوں کے لئے نسیم بہار ثابت ہوئی۔ انقلاب اسلامی سے پہلے ایران خطے میں اسرائیل کا رفیق کار تھا، لیکن امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران نے اعلان کر دیا کہ ہم ظالم، غاصب اور ناجائز اسرائیل کو قبول نہیں کرتے۔
افکار امام خمینی کی بنیاد اس بات پر استوار تھی کہ دین اور سیاست ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں، کئی ہزار سالہ سامراجی اور صیہونی محنت کے نتیجہ میں یہ نظریہ قائم کیا گیا تھا کہ دین کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے، اگر دین سیاست کے کاموں میں مداخلت کرے گا تو دین نجس ہو جائے گا اور سیاست جیسے گناہ سے آلودہ ہو جائے گا، لہذا دینی علماء کو اپنی مساجد اور مدارس میں اللہ اللہ کرنا چاہیئے اور سیاسی مسائل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔ لیکن عین اسی زمانے میں امام خمینی کے افکار کا سورج طلوع ہوا اور امام نے ان تمام باطل نظریوں کے مقابلے میں "دین عین سیاست و سیاست عین دیانت" کا نظریہ پیش کر دیا۔
اگرچہ امام کے دین و سیاست کے اتحاد کے نظریہ کو بہت شہرت ملی، لیکن درحقیقت اس کے پیچھے ایک اور نظریہ کار فرما تھا اور وہ یہ تھا کہ گذشتہ ادوار میں علماء اس بات کے قائل تھے کہ سیاسی مسائل میں مداخلت چونکہ امر بالمعروف و نہی از منکر کے باب سے ہے اور امر بالمعروف و نہی از منکر کیلئے بنیادی شرط قدرت یعنی طاقت کا ہونا ضروری ہے۔ لہذا جب تک طاقت موجود نہ ہو، اس وقت تک امر بالمعروف و نہی از منکر ہم پر واجب نہیں، لہذا سیاست میں دخالت دین اور علمائے دین کی ذمہ داری نہیں ہے، لیکن اس کے مقابلے میں بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کا نظریہ ان سے مختلف تھا، ان کے مطابق اگرچہ طاقت امر بالمعروف کیلئے بنیادی شرط ہے، لیکن اس طاقت و قوت کا حصول بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
بانی ِانقلابِ اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی امام خمینی (رہ) کی سیاسی علنی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز اکتوبر 1962ء میں ہوا، جب شاہ کی کابینہ نے ایک بل پاس کیا، جس میں امیدواران اور رائے دہندگان میں غیر مسلموں کی شمولیت اور قرآن کریم کی بجائے دوسری آسمانی کتب پر حلف اٹھانے جیسے امور شامل تھے۔ امام خمینی کو جیسے ہی اس کی اطلاع ملی، وہ شاہ کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، جس کا اثر یہ ہوا کہ بل پر عملدرآمد روک دیا گیا۔ انقلاب کے لئے اگلا پیش خیمہ 1963ء میں یوم عاشور کے موقع پر امام کا وہ خطاب ثابت ہوا، جس میں انہوں نے شاہ کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات کا پردہ چاک کیا۔ قم مرگ بر شاہ کے نعروں سے گونجنے لگا، امام کو گرفتار کر لیا گیا، لوگوں میں اشتعال مزید بڑھا تو حکومت نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔
لیکن عوام اپنے رہبر کے بغیر رہنے پر آمادہ نہ تھے، عوامی دباو پر امام کو رہا کر دیا گیا، لیکن اب دیر ہوچکی تھی۔ امام کی انقلابی فکر شاہ کے ظلم سہتی ایرانی عوام کو اپنا گرویدہ بنا چکی تھی۔ ایسی صورتحال میں 1964ء میں ایک اور بل منظور کیا گیا، جس میں ایران کے اندر امریکی فورسز کی تعیناتی کے لئے تمام رکاوٹوں کا خاتمہ تھا۔ امام خمینی نے ایک طاغوت شکن خطاب کے ذریعے اس بل کی زبردست مخالفت کی۔ شاہ کی حکومت امام کی اس مزاحمت سے سخت تذبذب کا شکار تھی۔ امام کی گرفتاری کا تجربہ ناکام ہوچکا تھا۔ شاہ کے پاس اب ایک ہی رستہ بچا تھا۔ سو اس نے وہ آزما دیا۔ 4 اکتوبر 1964ء کو امام کو جلا وطن کر دیا گیا۔ جلا وطنی کے دوران امام خمینی ترکی، نجف اشرف اور پیرس میں قیام پذیر رہے، لیکن ان تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹے۔
اس دوران ان کے ایک فرزند کو شہید کر دیا گیا، لیکن امام خمینی کا عزم و حوصلہ دیدنی تھا، پائے استقلال میں ذرا برابر بھی لغزش لائے بغیر اپنے مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔ بالآخر 14 سال کی جلا وطنی کے بعد یکم فروری 1979ء کو امام تہران کے مہر آباد ایئرپورٹ پر اترے تو مناظر دیدنی تھے۔ عوام اپنے محبوب لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھے۔ بختیار کی حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اپنے رہبر کی آواز پر لبیک کہتی ایران کی انقلابی عوام نے شاہی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ 11 فروری کا سورج انقلابِ اسلامی کی نوید لے کر طلوع ہوا۔ بالآخر یہ مردِ حق جو 21 ستمبر 1902ء کو تہران کے مشرق سے طلوع ہوا تھا، باطل کے باطل نظریات کو خاک میں ملا کر 4 جون 1989ء کی رات اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔