تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ فلسطین کی آزادی اور ناجائز قبضے کے خاتمے کے لیے ایک مزاحمتی محور ترتیب دیا گیا۔ اس میں وہ تمام قوتیں باہم متحد تھیں، جو فلسطین کی آزادی کے لیے کوشاں تھیں۔ اس میں مسلک، رنگ، نسل یا قومیت کی اہمیت نہیں تھی۔ اصولی بات یہ تھی کہ فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے جو بھی مخلصانہ کوشش کر رہا ہے، وہ اس مزاحمتی محور کا حصہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران بطور ریاست فلسطین کی آزادی کے لیے کوشاں ہے اور اپنی پوری خارجہ پالیسی کو اسی بنیاد پر استوار کیا ہے، اس کے پاس وسائل اور طاقت ہے۔ ان وجوہات کی بنیاد پر اس کا مرکز اسلامی جمہوریہ ایران بن گیا۔ اس مزاحمتی محور میں سلفی سوچ و فکر رکھنے والی حماس، شیعہ پس منظر کی حامل جماعت حزب اللہ، حزب اللہ کے لبنانی اور فلسطینی اتحادیوں میں مسیحی اور دروز، شام کا بعثی حکمران بشار الاسد اور عراق کے مختلف مزاحمتی گروہوں کے ساتھ یمن کی انصار اللہ شامل ہیں۔
اسرائیل اور اس کے اتحادی مسلمان ممالک کو الگ الگ کرکے مارتے ہیں۔ مسلمانوں کا اتحاد انہیں کسی صورت میں گوارا نہیں ہے۔ اس مزاحمتی محور میں کوئی کسی کی پراکسی نہیں ہے اور کوئی کسی کا ایجنٹ نہیں ہے۔ سب اپنی اپنی جگہ پر مستقل ہیں اور باہمی طور پر ایک نقطہ پر متفق ہیں کہ اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت کی جائے۔ اس مزاحمت میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ شام میں ترکی اور دیگر کچھ ممالک نے مقامی سہولت کاروں کے ساتھ مل کر اس وقت مزاحمت کے خلاف اقدام کیا، جب پوری توجہ اسرائیل کے خلاف تھی۔ کچھ مقامی کم معلومات رکھنے والے اور شامی گروہوں کے پروپیگنڈے کا شکار لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ حزب اللہ نے جنگ بندی کیوں کی۔؟ ویسے سوال تو ان سے بنتا ہے کہ جو پورے شام کو بارہ دنوں میں فتح کرنے پر شادیانے بجا کر جنگی صلاحیتوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ ذرا اپنی فوجوں کو آگے بڑھنے دیتے ہیں اور گولان کو آزاد کرا لیتے۔ پرانا کیا آزاد کرانا تھا؟ جو نیا اسرائیل نے قبضہ کیا ہے، اسے ہی چھڑا لیتے۔
پلان یہ تھا کہ حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ الجھی ہوگی اور اس کی توانائیاں پوری طرح مشغول ہوں گی، اس وقت داعش اور ترک نواز فورسز لبنان سے خود ساختہ بدلے کے نام پر حزب اللہ پر ٹوٹ پڑیں گی۔ لگتا یوں ہے کہ پوری گیم اس طرح سے ترتیب دی گئی تھی کہ اگر ایران مزاحمتی گروہوں کے ساتھ شام میں رکاوٹ بنتا ہے تو جنگ میں ترک، امریکہ اور اسرائیل براہ راست شامل ہو جائیں گے۔ یہاں جنگ میں بھاری جانی نقصان پہنچایا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بشار بوجھ بن چکا تھا اور اس نے اپنی نجات عربوں اور مغرب کے ساتھ دیکھ لی تھی، معیشت کی تباہی نے اس کا بھرکس نکال دیا تھا، اس کے حامی بھی اس کے مخالف بن چکے تھے۔ ایسے میں زمینی حقائق کے مطابق تین ماہ پہلے جب یہ کنفرم ہوگیا کہ اب پلان پر کسی بھی وقت عمل ہوسکتاہے تو شام کو خالی کر دیا گیا ہے۔ اسی لیے کہیں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔
نبی بیری لبنانی پارلیمنٹ کے سپیکر، جہاندیدہ سیاستدان بالخصوص لبنانی سیاست کے ماہر ہیں۔ انہوں نے فوری خطرے کو محسوس کر لیا کہ مقامی فرقہ پرست داعشی ذہن لوگ اور وہ مسیحی جماعتیں جنہیں حزب اللہ نے اسرائیل سے تعاون کی وجہ سے شدید نقصان پہنچایا ہے، مکمل تیار ہوچکی ہیں۔ اس طرح بھرپور شورش برپا کرکے حزب اللہ پر گہرا وار کرنے کا پروگرام فائنل ہوچکا ہے اور اس میں لبنانی حکومت کے طاقتور لوگ بھی شامل ہیں۔ اندرونی اور بیرونی منافقین اور کفار کا اتحاد ہوچکا تھا۔ ایسے میں حزب اللہ نے فوری طور پر نبی بیری کے ذریعے لبنانی ریاست کو مکمل اختیار دے دیا کہ وہ مذاکرات کرے۔ یوں یہ جنگ بندی لبنان اور اسرائیل کے درمیان ہوئی، حزب اللہ نے منافقین کو ناکام کیا اور پوری طاقت سے اپنی جگہ موجود ہے۔
عراق کے دوبارہ خواب دیکھے جا رہے ہیں، اسرائیلی اور امریکی عراق میں دوبارہ بربادی کا سامان کرنا چاہتے ہیں۔ کئی خبریں آئیں کہ ہزاروں خوارج جمع کیے جا رہے ہیں اور انہیں عراق لانچ کیا جائے گا۔ ایسے میں عراق کے سفیر اور عراق کے انٹیلی جنس چیف نے گولانی سے ملاقات کی ہے۔ یہ ملاقات یقیناً یہ بتانے کے لیے ہوگی کہ عراق کے خواب نہ دیکھے جائیں اور اب عراق بشار کے شام کی طرح ترنوالہ نہیں ہے۔ یہ خدشات اس لیے بھی ہیں کہ گولانی کا ماضی عراقیوں کے قتل عام سے عبارت ہے۔ اس نے فسادی گروہوں کا حصہ بن کر بہت سے عراقیوں کا قتل عام کیا ہے۔ جس شخص کا ماضی بین الاقوامی داعشی نظریات کا حامل ہو، اس پر کسی صورت اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے نمائندے نے عراق میں آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی مدظلہ العالی سے ایک ہفتے میں دو بار ملاقات کی ہے۔ اس حوالے سے جو خبریں سامنے آرہی ہیں، وہ بھی کسی بین الاقوامی سازش کا پتہ دیتی ہیں، جس میں عراق کو برباد کرنے کا پروگرام ہے۔ اسی لیے سید بزرگوار نے سختی سے حشد الشعبی کے حوالے سے اپنے فتویٰ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی سے انکار کیا ہے۔ اس وقت حشد الشعبی عراق کی اصل دفاعی لائن ہے، جسے دشمن اپنے لیے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ بے نظریہ فوج جنگ نہیں کرسکتی، اسی لیے حشد الشعبی دشمن کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے کہ اس نے عراق کا بھرپور دفاع کیا ہے۔
یہ وقت بہت احتیاط کا متقاضی ہے، دشمن نے اپنا راستہ بدل لیا ہے، اب وہ منافقین کے ذریعے اپنا کام کرے گا۔ شام کے حالات نے اس میں امید پیدا کر دی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ طاقت کا توازن ان کے حق میں چلا گیا ہے۔ ان حالات میں یمن بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے، یمن کے اہل ایمان کو فوری طور پر اندرونی محاذ پر توجہ دینا ہوگی۔ سابقہ حکومت کے عناصر کو مسلح کیا جا سکتا ہے اور جو معاہدوں کے گرانٹر ہیں، وہ وہی کریں گے، جو انہوں نے شام میں کیا۔ یاد رکھیں کہ اہل یمن اپنی بساط سے بڑھ کر فلسطینیوں کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔ انہیں امریکہ اور اسرائیل سے لڑا کر منافقین یمن پر قبضہ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ وقت ان مفافقین کی چالوں کو ناکام بنانے کا ہے، تاکہ مراکز محفوظ رہیں، مزاحمت کے لیے لمبا وقت ہے۔