اسلام ٹائمز۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ میں پی ٹی آئی احتجاج کیخلاف آپریشن کے حوالے سے خوفناک انکشاف سامنے آیا ہے۔ آپریشن کی رات اسلام آباد کے دو بڑے ہسپتالوں میں بے شمار زخمیوں کو لایا گیا تھا اور ایک رات میں اتنی سرجریز کی گئیں جتنی اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے پولی کلینک اور پمز کے ڈاکٹرز نے کارروائی کے خدشے کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ اس بارے میں بات نہیں کر سکتے تاہم ایک ڈاکٹر نے آپریشن کی رات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے آج تک ایک رات میں اتنی سرجریز نہیں کی ہیں، جتنی آپریشن کی رات کی گئیں۔
پولی کلینک میں ایک ڈاکٹر نے کہا کہ بعض زخمی اس قدر تشویشناک حالت میں آئے کہ انھیں انیستھیزیا دینے کا انتظار کرنے کی بجائے ہمیں سرجریز شروع کرنی پڑیں۔ بہت سے مریض ایسے تھے جن کا خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک اور ڈاکٹر نے کہا کہ ہمارے پاس رش اس قدر زیادہ تھا کہ ہم نے ایک بیڈ پر دو دو سرجریز کیں اور گولیاں نکالی ہیں۔ جو میں نے رات کو یہاں دیکھا، وہ میں کبھی بھول نہیں سکوں گی۔
ان ہسپتالوں میں زیر علاج یہ زخمی ملاقات کے لیے آنے والوں کو اس وقت تک یہ نہیں بتاتے کہ وہ پی ٹی آئی کے کارکنان ہیں، جب تک انھیں یہ یقین نہ ہو جائے کہ پوچھنے والا حکومتی اہلکار یا پولیس اور رینجرز سے نہیں ہے۔ انھیں ڈر ہے کہ انھیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال میں متعدد ڈاکٹرز اور عملے کے افراد نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے ان پر دباؤ تھا کہ زخمی افراد کو ان کے حوالے کیا جائے۔ پولی کلینک کے متعدد ڈاکٹروں نے بتایا کہ شام سے ہی درجنوں کارکنان ہسپتال لائے گئے جنھیں گولیاں لگی تھیں۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جو کہتے کہ ان کا نام کاٹ دیں اور کئی ایسے تھے جنھوں نے درخواست کی کہ ان کا نام ریکارڈ میں نہ ڈالا جائے۔
ہسپتال کے ایک ڈاکٹر اور عملے کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ زخمی یہ کہہ رہے تھے کہ ان کا نام ریکارڈ کا حصہ بننے کی صورت میں انھیں حراست میں لیے جانے کا خوف تھا۔ برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے پولی کلینک میں موجود پاکستان تحریک انصاف کے پنجاب سے عہدیدار نے بتایا کہ انھوں نے آپریشن کے دوران پی ٹی آئی کے درجنوں کارکنوں کو ہسپتال سے خارج ہونے میں مدد کی۔ وہ اس وقت بھی ہسپتال میں ان مریضوں کی معلومات حاصل کر رہے تھے جو تاحال زیرِ علاج ہیں۔ دونوں ہسپتالوں کے طبی عملے نے بتایا کہ ان پر انتظامیہ کی جانب سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ معلومات نہیں دے سکتے۔