تحریر: اتوسا دیناریان
25 نومبر کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا گیا ہے۔ یہ دن ایسے عالم میں منایا گیا کہ دنیا کے کئی ممالک میں خواتین پر اب بھی جبر، ظلم اور تشدد روا رکھا جاتا ہے۔ غزہ جیسے جنگی علاقوں میں تو یہ صورتحال بہت ہی سنگین ہے۔ اس سال بھی خواتین کے خلاف تشدد کی ممانعت کا عالمی دن ایسے عالم میں منایا گیا ہے کہ کئی دہائیوں تک خواتین کے حقوق کے احترام کے نعرے لگانے کے بعد اب بھی کئی ممالک میں خواتین کو کم سے کم قانونی حقوق اور زندگی گزارنے کا مطلوبہ حق حاصل نہیں ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال آج کی غزہ کی جنگ ہے۔ یہ صورتحال ہر آزاد شخص کو تکلیف دیتی ہے۔
اس سلسلے میں ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان "اسماعیل بقائی" نے ایکس چینل پر لکھا ہے "خواتین کے خلاف تشدد کی ممانعت کے عالمی دن کے موقع پر، آئیے کئی دہائیوں سے جاری وحشیانہ تشدد کی وجہ سے ہونے والے شدید تشدد کو یاد کریں۔" مقبوضہ فلسطین میں قبضے اور نوآبادیاتی نسل کشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بقائی نے کہا ہے کہ غزہ میں خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد کی سطح انتہائی شدید، بے مثال اور افسوسناک ہے۔ گذشتہ سال کے دوران دسیوں ہزار فلسطینی خواتین اور بچیاں ہلاک یا زخمی ہوئیں اور اس وقت بھی کئی مائیں، خواتین اور بچیاں بھوک اور ہجرت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
غزہ کی جنگ کے ایک سال سے زائد عرصے بعد بھی مقبوضہ فلسطین میں خواتین اور بچوں کی صورتحال تشویشناک ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹر ریم السلم نے ایک رپورٹ میں تاکید کی ہے کہ بہت سے فیلڈ ورکرز کو غزہ میں فلسطینیوں کی حالت اور غزہ میں موجود دکھ اور تکلیف کو بیان کرنے کے لیے صحیح الفاظ نہیں ملے۔ اسرائیل غزہ میں خواتین اور بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ہلاک ہونے والے فلسطینیوں میں 70 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔ وہ اس لئے جنگی جرائم کا شکار ہیں، کیونکہ وہ فلسطینی اور خواتین ہیں۔
غزہ کی خواتین کو مشکل حالات کا سامنا ہے، ان میں سے کئی اپنے شوہر اور بچوں کو کھو چکی ہیں۔ بہت سو کو فاقہ کشی کا خطرہ ہے، کیونکہ انسانی امداد کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ غزہ میں حاملہ خواتین بمباری اور طبی سہولیات کی کمی کے باعث بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہیں۔ وہ غیر انسانی اور توہین آمیز رویئے کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے نامہ نگاروں نے بھی فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ اسرائیل کے غیر انسانی اور توہین آمیز رویئے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ "الجزیرہ" چینل نے حال ہی میں غزہ پٹی کے "الشفاء" میڈیکل کمپلیکس میں زیر محاصرہ ایک فلسطینی شہری کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے اس میڈیکل کمپلیکس میں کئی فلسطینی خواتین کی عصمت دری کی اور پھر انہیں قتل کیا۔
فلسطینی خواتین اور ان کے بچوں کو پھانسی دینے، مغربی کنارے اور مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی جبری گرفتاری اور حراستی مراکز میں منتقلی کے بارے میں معتبر رپورٹیں بین الاقوامی نامہ نگاروں نے شائع کی ہیں۔ افغانستان جیسے دیگر ممالک میں بھی خواتین کے خلاف تشدد میں شدت آئی ہے، افغان خواتین کے سیاسی شراکت کے نیٹ ورک کی سربراہ ترنم سعیدی کہتی ہیں۔ افغان خواتین نے اس سال ایسی حالت میں 25 نومبر کا دن منایا کہ وہ بڑھتے ہوئے تشدد، سماجی تذلیل اور منظم ناانصافیوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں بھی خواتین تشدد اور عدم مساوات کا شکار ہیں، اسی لیے فرانس اور اٹلی میں بھی کئی خواتین نے چند روز قبل احتجاجی مظاہرے شروع کیے ہیں۔ روم، پیرس، مارسیلے اور لِل کے شہروں میں مظاہرین نے خواتین کے خلاف جنسی، جسمانی، نفسیاتی اور معاشی سمیت ہر قسم کے تشدد کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
امریکہ میں خواتین اور لڑکیاں، خاص طور پر تارکین وطن اور رنگین فام لوگ مشکل حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں اوسطاً ہر تین میں سے ایک عورت گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ہر دو میں سے ایک عورت اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر گھریلو تشدد کا سامنا کرتی ہے۔ بہرحال خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد آج بھی دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے سب سے زیادہ پائے جانے والے واقعات میں سے ایک ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اس بارے میں عالمی خاموشی اور حکومتی اداروں کی نااہلی و بے پرواہی ہے۔