0
Wednesday 27 Nov 2024 00:22

میں پاراچنار ہوں

میں پاراچنار ہوں
تحریر: ارشاد حسین ناصر

میں پاراچنار ہوں، مجھے کرم ایجنسی بھی کہتے ہیں، میں افغانستان کی سرحد پر واقع ہوں، مجھے تین اطراف سے افغانستان کے بلند و بالا پہاڑوں نے گھیرا ہوا ہے تو ایک راستہ پاکستان کی طرف جاتا ہے، ویسے تو میں پاکستان کا انتہائی اہمیت کا حساس علاقہ سمجھا جاتا ہوں، جس میں امن، سلامتی، خوش حالی ہوتی ہے۔ ایک ایسا علاقہ و خطہ، جو ملک کے دفاعی اداروں اور فورسز کیلئے بھی مکمل اعتماد اور تعاون کا کردار ادار کرتا ہو اور فورسز و دفاعی ادارے میرے ساتھ نہایت ہمدردانہ، محبت آمیز، شفیقانہ، رویہ و انداز اختیار کرتے ہوں۔ اس لیے کہ میں عالمی سازشوں کی آماجگاہ افغانستان کا پڑوسی ہوں، گویا میری سلامتی اور راستی باقی ملک کی سلامتی و راستی تصور ہوتی ہے، مگر مجھے نہایت بے دردی سے زخمی کیا جاتا ہے، ہر کچھ عرصہ کے بعد مجھے قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے، مجھے اتنے زخم دیئے گئیے ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں، میری رگ رگ اور روح بھی زخموں سے چور ہیں، میں زخموں سے چور ہوں، میرے جسم و جان سے اس وقت بھی خون رس رہا ہے، میرا خون بہانے اور زخم لگانے والے کوئی اور نہیں میرے اپنے "گارڈز اور محافظ" ہیں، جو اپنی طاقت و قوت کا اظہار ایسے ہی کرتے ہیں۔

مجھے کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے، میں بہت سے پہلووں سے سوچتا ہوں کہ آخر میرا جرم کیا ہے؟ کیا میری، دلکشی، میری خوبصورتی، میرا حسن و جمال میرا جرم ہے۔؟میرے بلند و بالا دلنشیں، سر سبز و شاداب، معدنیات سے بھرپور پہاڑ میرا جرم ہیں۔؟میری آب و ہوا اور شفاف فضا میرا جرم ہے؟ میری جغرافیائی پوزیشن کہ میں تین اطراف سے افغانستان کیساتھ متصل ہوں، میرا جرم ہے؟ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ میرے بیٹوں، میرے فرزندان کی تعلیم، تہذیب، تربیت، شرافت، جراءت، بہادری، استقامت، شجاعت میرا جرم ہے۔؟ میری وفا، میری محبت، میری پاکستان سے جڑنے کی پالیسی میرا جرم ہے۔؟ آخر مجھے ہی کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے، میں کیوں آگ و خون کی وادی میں تبدیل کیا جاتا ہوں، یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے، مگر بہت سے لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تمہارا مذہب تمہیں روز مرواتا ہے، زخمی کرواتا ہے، آگ و خون کی وادی میں تبدیل کرواتا ہے، مگر میں انہیں کہتا ہوں کہ میرا مذہب کچھ نیا تو نہیں۔

یہ روس افغانستان جنگ سے پہلے بھی تو تھا، تب کیوں مجھے میرے مذہب کی بنیاد پر یوں زخم آلود نہیں کیا جاتا تھا، تب مجھے کیوں کافر کافر کے نعرے لگا کر خاک و خون میں غلطان نہیں کیا جاتا تھا۔؟ میرے اسی مذہب نے مجھے تہذیب سکھائی اور برادرانہ اطوار و روایات اختیار کرنے کی ترغیب دی، جس پر میں ہمیشہ کاربند رہا، مگر میرے اتحاد و وحدت اور اخوت و بھائی چارگی کا قتل عام کیا جاتا رہا اور آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ میں نے اپنے بیٹوں کو تعلیم یافتہ بنایا ہے، دنیا کی تعلیم اور معاشرہ کی تہذیب سے آراستہ کیا ہے، تاکہ دیگر چھ ایجنسیز کی طرح میرا گھر، میری زمین، بارود کی بو میں نہ جلے اور مسائیل و مشکلات کو باہمی میل ملاپ، ملاقات اور جرگوں سے حل کیا جاسکے۔ میں صدیوں سے جاری قبائلی انتقام و خون بہا کی پالیسی سے جو قتل و غارت اور پراگندگی کا ماحول جنم دیتی ہے، کی بجائے صلح و امن کی راہ کا مسافر بننا چاہتا تھا، جسے ہمیشہ ہی بری طرح روند ڈالا جاتا ہے۔

مجھے ہر بار اس صلح کے پیغام کے جواب میں دھوکے اور فریب سے لوٹ لیا جاتا ہے۔ مجھے امن، سلامتی اور صلح کا پیغام دے کر میرا قتل کیا جاتا رہا ہے، میرے محافظ ہی مجھے دشمنوں کیساتھ مل کر مرواتے ہیں۔ میں اعتماد کر بیٹھتا ہوں جو کہ اصولی طور پر غلط ہوتا ہے۔ مومن ایک سوراخ سے   نہیں ڈسا جاتا، مگر میں اعتماد کے نام پر بار بار دھوکے کھا جاتا ہوں۔ شاید وطن کی محبت، امن کی خواہش اور میری سادگی کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ میں کچھ ہی عرصہ پہلے تک باقی چھ ایجنسیز کی طرح کرم ایجنسی تھا۔ پھر مجھے کرم ضلع کا نام دیا گیا، میری ساخت پرداخت کچھ ایسی ہے کہ میرا ماحول و ثقافت اور روایات قبائیلی تھیں، جو سینکڑوں برس سے چلی آ رہی ہیں۔ مجھے کرم ڈسٹرکٹ کہنے سے وہ روایات، وہ رسوم، وہ ثقافت تبدیل نہیں ہوگئیں، نا ہی کسی انتظامی عہدے کا نام بدلنے سے وہ روایات، وہ ماحول تبدیل ہوا ہے۔

میں جیسے ڈسٹرکٹ کہلائے جانے سے پہلے ایک کرنل کے ہاتھوں یرغمال رہتا تھا، اب بھی ویسا ہی ہے، مجھے میری شناخت چاہیئے، مجھے میرا مقام چاہیئے، مجھے میری پہچان چاہیئے، مجھے بتایا جائے کہ میں کون ہوں۔ میں ڈسٹرکٹ ہوں، ضلع ہوں، صوبے کے تحت ہوں، یا فورسز کی آماجگاہ ہوں، ان کا دست نگر اور کھیل کا میدان ہوں یا میں مرکز کا زیر نگین ہوں۔؟ مجھے بتایا جائے کہ میں کب تک یہ زخم سہتا رہوں گا۔ مجھے تعلیم دینے کے جرم میں کب تک خون میں لت پت کیا جاتا رہے گا۔؟ مجھے امن کا پیغام دینے اور شر و فساد کا مقابلہ کرنے کی سزا کے طور پر کب تک میرے جسم کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاتا رہے گا۔؟ بتایا جائے کہ مجھے اپنے محافظوں پر اعتماد کرنے کی سزا کے طور پر کب تک بیوی، بچوں، سامان سفر سمیت آگ و خون کے دریا میں ڈالا جاتا رہے گا۔؟ مجھے بتایا جائے کہ مجھے کب تک اپنے ملک، اپنی سرزمین کی محافظت اور سرحدوں کے دفاع کی سزا میں بموں کی برسات، خودکش حملوں کی یلغار اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار کیا جاتا رہے گا۔؟

کیا میرا جرم ان خوارج سے بھی بڑا ہے، جنہوں نے اس ملک کی افواج، فورسز، جاسوسی مراکز، دفاعی مقامات، فوجی بیسز، جی ایچ کیو، فوجی کانوائیوں، آفیسرز، سپاہیوں کو نشانہ بنایا۔؟ کیا میرا جرم ان سے بھی بڑا ہے، جنہوں نے اس ملک کے مزارات مقدس، مساجد، مدارس، بازار، پارکس، کھیل کے میدان، غیر ملکی کھلاڑیوں، سفارت خانوں، صحافیوں، وکلاء، ڈاکٹرز، علماء، پروفیسرز، اساتذہ کرام، پولیس افسران، تھانوں، تربیتی مراکز تک کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور ملک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔؟ میں نے آج تک کسی ایک فوجی جوان، کسی پولیس اہلکار، کسی فوجی مرکز، کسی دفاعی انسٹالیشن، کسی انٹیلی جنس مرکز، کسی سرکاری ادارے پر حملہ، یلغار نہیں کی۔ کہیں بم نہیں چلایا، کہیں دھماکہ نہیں کیا، کسی پر ایک گولی نہیں چلائی۔ کسی کو ذبح نہیں کیا، کسی کا گلہ نہیں کاٹا، کسی کے سر کا فٹ بال نہیں بنایا، پھر بھی مجھے مشکوک سمجھا جائے۔ اس کے باوجود میری وطن پرستی پر شکوک کیوں؟ اس کے باوجود میری قربانیوں کا صلہ گلے کٹوانے کی صورت کیوں؟ اس کے باوجود میرے مقابلے کیلئے جنہیں خوارج کہا جا رہا ہے، انہیں میرے اوپر مسلط کرنے کی سازش کیوں۔؟

میں پاراچنار ہوں، مجھے میرا مقام دو، مجھے میری شناخت دو، مجھے انصاف دو، مجھے امن دو، مجھے میری تعلیم کا صلہ دو، مجھے میری تہذیب کا صلہ دو، مجھے تحفظ دو۔ میرے بچوں کو احساس تحفظ دو، مجھے باغی مت بناو، مجھے دشمن کیساتھ مل کر للکارو نہیں، مجھے دشمن کی صفوں سے پکارو نہیں، مجھے اپنے ہر قطرہ خون کا حساب دو۔ مجھے فخر ہے کہ میں اس ملک، اس سرزمین، اس پاک وطن کا باوفا ہوں اور مجھے میری وفاوں کا صلہ چاہیئے۔ یہی اس ملک، اس ملت، اس سرزمین، اس پاک وطن کیلئے بہتر ہے۔ ورنہ جو کچھ 21 نومبر کے سانحہ کے بعد ہوا ہے، وہ ہماری غیرت کو للکارنے پر دہرایا جاتا رہے گا۔ اس لیے کہ میں پاراچنار ہوں، شجاعوں کی سرزمین، بہادروں کی سرزمین، جریوں کی سرزمین، غیرت مندوں کی سرزمین، وفاداروں کی سرزمین، حسینیوں کی سرزمین، علمداروں کی سرزمین، زینبیون کی سرزمین۔
خبر کا کوڈ : 1175072
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش