تحریر: محمد افضلی
غاصب صیہونی رژیم کی سیکورٹی کابینہ نے حزب اللہ لبنان کے خلاف مسلسل شکست کے بعد آخرکار کل رات جنگ بندی کا فیصلہ کر لیا۔ اگرچہ لبنان پر فوجی جارحیت کے آغاز میں صیہونی حکمران دعوی کر رہے تھے کہ ان کا مقصد دریائے لیتانی تک کے علاقے پر فوجی قبضہ برقرار کرنا ہے، لیکن تقریباً ڈیڑھ ماہ کی جنگ میں شدید جانی اور مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد بھی صیہونی فوج کوئی خاص پیشقدمی نہ کر سکی اور آخرکار صیہونی رژیم جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گئی۔ صیہونی ذرائع ابلاغ نے دعوی کیا ہے کہ لبنان اور صیہونی رژیم کے درمیان جنگ بندی آج بروز بدھ 27 نومبر 2024ء سے لاگو ہو گئی ہے۔ یہ جنگ بندی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد 1701 کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ صیہونی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ 60 دنوں میں مرحلہ وار لبنان کے علاقوں سے باہر نکل جائے گی۔
لبنان سے جنگ بندی کے بعد صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو ایک بار پھر شدید تنقید کی زد میں ہے اور اندرونی حلقوں کی جانب سے شدید دباو کا شکار ہے۔ صیہونی وزیراعظم نے یہ دباو کم کرنے کے لیے اور یہودی آبادکاروں کی توجہ اندرونی مسائل سے ہٹانے کے لیے ایک بار پھر ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی ہے۔ قطر کے الجزیرہ نیوز چینل کے مطابق نیتن یاہو نے کہا ہے: "لبنان سے جنگ بندی کا مقصد ایران سے درپیش خطرات پر توجہ مرکوز کرنا ہے اور ہم نے ایران کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی سے روکنے کے لیے ہر ممکنہ اقدام کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔" بنجمن نیتن یاہو نے غزہ اور لبنان میں اپنی کابینہ کی سیکورٹی اور سیاسی ناکامیوں کا ذکر کیے بغیر کہا: "اپنے تمام تر اہداف کے حصول تک جنگ ختم نہیں کریں گے۔" نیتن یاہو نے گذشتہ چند ماہ کے دوران بارہا کیے گئے دعوے کو ایک بار پھر دہرایا اور کہا کہ حماس کی نابودی جاری رکھیں گے۔
صیہونی ذرائع ابلاغ کے مطابق بنجمن نیتن یاہو نے مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں میں یہودی بستیوں کے میئرز سے بھی ملاقات کی ہے جو لبنان سے جنگ بندی کے شدید مخالف ہیں۔ صیہونی اخبار ٹائمز اس بارے میں لکھتا ہے کہ یہ ملاقات اس وقت انجام پائی جب ان میئرز نے لبنان سے جنگ بندی پر شدید تنقید کی۔ صیہونی کابینہ میں شامل کچھ اعلی سطحی حکام جیسے وزیر جنگ اور صیہونی فوج کا چیف آف آرمی اسٹاف بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ صیہونی کابینہ کی جانب سے جنگ بندی قبول کر لینے پر لبنان اور مقبوضہ فلسطین میں کافی زیادہ ردعمل سامنے آئے ہیں۔ لبنان میں نگران حکومت کے وزیراعظم نجیب میقاتی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جلد از جلد جنگ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہا: "جنگ بندی کے اعلان کے بعد بیروت پر جارحانہ حملے صیہونی دشمن کا کینہ اور نفرت ظاہر کرتے ہیں۔"
حزب اللہ لبنان کی سیاسی کاونسل کے نائب سربراہ محمود قماطی نے جنگ بندی کے لیے امریکہ کی پیش کردہ شرائط کے بارے میں کہا تھا کہ اس میں کچھ نکات غلط ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے کیونکہ ان کا نتیجہ لبنان کی خودمختاری متاثر ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا: "یہ بات ہمارے لیے ہر گز قابل قبول نہیں کہ غاصب صیہونی رژیم ہماری سرحدوں کے اندر آزادانہ فعالیت انجام دے۔" انہوں نے کہا کہ ہم نے جنگ بندی مذاکرات میں مضبوط موقف اختیار کیا ہے اور ہر گز اپنی آزادی اور خودمختاری کا سودا نہیں کریں گے۔ دوسری طرف لبنان پارلیمنٹ میں حزب اللہ لبنان کے رکن اور پارلیمانی پارٹی کے سربراہ محمد رعد نے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے جنگ بندی کی ممکنہ خلاف ورزی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہر ایسی پیشکش قبول کریں گے جس میں لبنان کی حاکمیت کا احترام کیا جائے گا۔
صیہونی رژیم کے داخلہ سیکورٹی کے وزیر اتمار بن غفیر نے لبنان سے جنگ بندی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: "اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی معاہدے سے جنگ کا وہ مقصد پورا نہیں ہو گا جس کے تحت اسرائیل کے شمالی حصوں سے جلاوطن یہودی آبادکاروں کی واپسی یقینی بنانا تھا۔" اتمار بن غفیر نے کہا: "لبنان سے جنگ بندی ایک تاریخی غلطی ہے۔" اسی طرح صیہونی رژیم کے اپوزیشن سربراہ یائیر لاپید نے کہا ہے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو حزب اللہ لبنان سے جنگ بندی پر مجبور ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ حزب اللہ سے جنگ بندی ہماری رفتہ آبرو واپس نہیں لا سکتی اور غزہ سے یرغمالیوں کی آزادی اور شمالی علاقوں سے جلاوطن آبادکاروں کی واپسی ممکن نہیں بنا سکتی۔ لاپید نے مزید کہا: "اسرائیلی کابینہ جنگ بندی پر مجبور ہو گئی ہے اور فوجی میدان میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو سیاسی کامیابی میں تبدیل نہیں کر پائی۔"
یورپ یونین کے سیکرٹری خارجہ جوزپ بوریل نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر جنگ بندی کی پابندی کرنے کے لیے دباو ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور فرانس نے اسرائیلی حکمرانوں کو سیکورٹی ایشوز پر مکمل یقین دہانی کروائی ہے لہذا اب ان کے پاس لبنان سے جنگ بندی نہ کرنے کا کوئی بہانہ باقی نہیں بچا۔ جوزپ بوریل نے کہ کہ جنگ بندی معاہدے کا مسودہ امریکہ نے تیار کیا ہے اور جنگ بندی کمیٹی کی سربراہی بھی امریکہ کے ہاتھ میں ہو گی جبکہ فرانس بھی لبنان کی درخواست پر اس کمیٹی میں شامل ہو گا۔ صیہونی رژیم ٹی وی کے چینل 12 نے جنگ بندی کی شرائط کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسرائیل سے عمل کی آزادی چھین لی گئی ہے۔ اس چینل کے مطابق جنگ بندی معاہدے میں حزب اللہ کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی صورت میں اسرائیل کو فری ہینڈ نہیں دیا گیا جو قابل قبول نہیں ہے۔