تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
صیہونی حکومت اور حزب اللہ لبنان کے درمیان چودہ ماہ کی جنگ اور تصادم کے بعد آج (بدھ) صبح دونوں فریقین کے درمیان ساٹھ روزہ جنگ بندی قائم ہوگئی۔ یہ جنگ بندی ایسے حالات میں عمل میں لائی گئی ہے، جب صیہونی حکومت کئی مہینوں کے وسیع فضائی اور زمینی حملوں کے باوجود لبنان کی اسلامی مزاحمتی فورس پر فتح حاصل کرنا تو دور کی بات ہے، اپنی اسٹریٹیجک گہرائی تک حزب اللہ کے راکٹ اور میزائل حملوں کو روکنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ اسی وجہ سے جنگ بندی کے اعلان پر اکثر صیہونی سیاست دانوں کا منفی ردعمل سامنے آیا ہے اور صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے مخالفین نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ جنگ بندی کو تسلیم کرنا ان کی مکمل شکست کو ظاہر کرتا ہے۔ صیہونی حکومت نے 7 اکتوبر 2023ء سے مغربی ممالک کی مکمل حمایت کے سائے میں غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطین کے بے دفاع اور مظلوم عوام کا بڑے پیمانے پر قتل عام شروع کیا اور اس کے بعد جنوبی لبنان پر حملے کرکے بڑی تعداد میں عام شہریوں کو شہید کر ڈالا۔
صیہونی جرائم پر عالمی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی کے نتیجے میں فلسطینی اور لبنان میں بے گناہ خواتین اور بچوں کے قتل عام جیسے صیہونی حکومت کے غیر انسانی اور وحشیانہ اقدامات جاری رکھنے کی شہہ ملی۔ حزب اللہ اس قتل عام پر خاموش نہیں رہی اور اس نے مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائيل کے شمال میں واقع صہیونی ٹھکانوں اور بستیوں کے خلاف متعدد کارروائیوں کا منصوبہ بنایا، جو بدھ کی صبح جنگ بندی کے نفاذ سے پہلے تک جاری رہا۔ اسرائیل کو ایسے حالات میں جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا، جب صیہونی حکومت کی اندرونی صورتحال دن بدن خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی تھی اور دوسری جانب غزہ میں جنگ کا ایک بھی ہدف اسے حاصل نہیں ہوسکا ہے۔ اس معاہدے پر استقامت اور مزاحمتی بلاک کے دوستوں اور دشمنوں کی کچھ تاثرات
اسلام ٹائمز کے قارئین کے پیش خدمت ہیں۔
نیتن یاہو کے بیانات پر صیہونیوں کا کیا ردعمل ہے
صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک بیان میں جنگ میں عظیم کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے حزب اللہ کو بھاری نقصان پہنچایا اور ہم حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنے اور مشرق وسطیٰ کا چہرہ بدلنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ ان بیانات پر اسرائیلی حکام میں ردعمل سامنے آیا ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم لیبرمین نے لکھا ہے کہ نیتن یاہو نے حتمی اور مکمل فتح کی بات کی، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ فتح کس فریق کی ہے۔ صیہونی حکومت کی لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ میراو میخائلی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نیتن یاہو کے دعوے بہت ہیں، لیکن آخرکار 101 اسرائیلی قیدی ابھی بھی غزہ میں ہیں اور ایک اچھا معاہدہ یہ ہوتا کہ حالیہ معاہدہ ان قیدیوں کی واپسی کا باعث بنتا۔
میرٹز پارٹی کے سابق رہنماء زہاوا گیلیون کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مشرق وسطیٰ کا چہرہ بدل دیں گے، لیکن یہ واقعی کیسے ممکن ہے جبکہ وہ 101 اسرائیلی قیدیوں کو غزہ کی سرنگوں میں تنہا چھوڑ چکے ہیں؟! صیہونی حکومت کے حزب اختلاف کے رہنماء یائر لاپیڈ نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت کی تاریخ کی سب سے بڑی تباہی نیتن یاہو کی وزارت عظمیٰ کے دوران پیش آئی اور حزب اللہ کے ساتھ یہ معاہدہ بھی اس رسوائی کو نہیں مٹا سکے گا۔ صیہونی حکومت کے سابق وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر کڑی تنقید کی اور اسے "مکمل سفارتی سلامتی کی ناکامی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ حزب اللہ کو اسرائیل پر حملہ کرنے سے نہیں روک سکتا۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کے پاس اب بھی دسیوں ہزار راکٹوں کا ذخیرہ موجود ہے اور وہ نہ صرف ہتھیار تیار کرسکتی ہے بلکہ اپنے ہتھیاروں کی تجدید بھی کرسکتی ہے۔ صیہونی حکومت کے داخلی سلامتی کے وزیر بین گوور نے بھی جنگ بندی کو ایک تاریخی غلطی قرار دیا ہے۔ عبرانی زبان کی نیوز سائٹ والا کے عسکری تجزیہ کار امیر بوخبوت نے بھی اس حوالے سے لکھا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ لبنان میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے حوالے سے نیتن یاہو کو "فتح" کی اصطلاح کہاں سے ملی۔ اسرائیل کے چینل 12 نے لبنان کے ساتھ معاہدے کے بارے میں ایک سروے کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ 69 فیصد اسرائیلی اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ "اسرائیل" نے حزب اللہ کے ساتھ جنگ جیت لی ہے۔
مزاحمتی بلاک کا اس جنگ بندی پر کیا ردعمل ہے
حزب اللہ کے پارلیمانی گروپ کے سربراہ محمد رعد نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کسی بھی ایسے فارمولے کے لیے تیار ہے، جو ملک کو دشمن کے خطرات سے محفوظ رکھ سکے۔ مزاحمتی تنظیموں نے صیہونی حکومت اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کو سراہتے ہوئے اسے مشرق وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرنے کے ناپاک اسرائیلی منصوبے کی ناکامی قرار دیا ہے۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم غزہ اور فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں لبنان کی اسلامی مزاحمتی تنظیم کے مرکزی کردار کی تعریف کرتے ہیں اور شہید سید حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ کی قربانیاں کو سراہتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ دشمن کا اپنی شرائط پورا ہوئے بغیر لبنان کے ساتھ جنگ کو قبول کر لینا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے نقشے کی تبدیلی کا اسرائیلی خواب ایک بار پھر چکنا چور ہوگیا ہے۔ اس بیان میں یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ہم برادر ممالک اور دنیا کے آزاد ممالک سے کہتے ہیں کہ وہ غزہ پر جارحیت بند کرنے کے لیے واشنگٹن اور قابض حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ نے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ "نعیم قاسم" کو لبنان میں جنگ بندی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم حتمی فتح کے حصول تک آپ کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔ انہوں نے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جہاد کیا اور فلسطین میں اپنے بھائیوں کی مدد کی، آپ نے اس وقت اپنے پاکیزہ خون کا نذرانہ پیش کیا، جبکہ کوئی بھی فلسطینیوں کو پانی کا ایک قطرہ بھی دینے کو تیار نہ تھا۔ یمن کی انصاراللہ کے ترجمان نے صیہونی حکومت کے خلاف حزب اللہ کے موقف اور لبنانی قوم کی یکجہتی کو سراہتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ نے اپنی پائيداری اور استقامت کے ذریعے صیہونی دشمن پر جنگ بندی مسلط کردی ہے۔ انصاراللہ کے ترجمان "محمد عبدالسلام نے کہا کہ ہم اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں حزب اللہ اور لبنانی قوم کے عظیم استقامت کو سراہتے ہیں۔
محمد عبدالسلام نے مزید کہا کہ مزاحمت طویل جنگ کی صلاحیت رکھتی ہے، جبکہ اسرائیل کی کمزور اور لاچار حکومت میں ایسا کرنے کی سکت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کے شہداء قدس کی راہ کے شہید ہیں اور حزب اللہ نے یہ کٹھن راستہ کامیابی اور سربلندی کے ساتھ طے کیا ہے۔ انصاراللہ کے سربراہ نے مزید کہا کہ صیہونی دشمن کے ساتھ جنگ ناگزیر ہے، البتہ یہ ایک مرحلہ وار جنگ ہے، جو بالآخر اس حکومت کے زوال کا باعث بنے گی۔ بہرحال موجودہ صورتحال نے واضح کر دیا ہے کہ صیہونی حکام کے دعوؤں کے برخلاف حزب اللہ کے پاس اب بھی صیہونی قبضے کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کی طاقت ہے۔ ادھر مزاحمتی قوتوں نے صیہونی دشمن کے مقابلے میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا کر ثابت کر دیا ہے کہ صیہونی حکومت نے اگر دوبارہ غلطی کا ارتکاب کیا یا خطے میں بحران پیدا کرنے کی کوشش کی تو تحریک مزاحمت کے پاس اس کا جواب دینے کی بھرپور طاقت موجود ہے۔