اسلام ٹائمز۔ کشمیر کے سیاسی رہنماؤں نے جمعرات کو راجستھان کے مشہور اجمیر شریف درگاہ کا سروے کرنے اور یہ دعویٰ کرنے کی درخواست پر تنقید کی کہ مزار پر شیو مندر ہے۔ انہوں نے خبردار کیا "یہ اقدام ملک بھر میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھا سکتا ہے"۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی نے حالیہ عدالتی فیصلوں کو کشیدگی میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا "سابق چیف جسٹس آف انڈیا کا شکریہ، ایک پنڈورا باکس کھل گیا ہے، جس نے اقلیتی مذہبی مقامات کے بارے میں ایک متنازع بحث کو جنم دیا"۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا "اس فیصلے نے ان مقامات کے سروے کے لئے راہ ہموار کی ہے، جس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے"۔ انہوں نے کہا کہ سنبھل اترپردیش میں حالیہ تشدد اس طرح کے فیصلے کا نتیجہ ہے، پہلے مساجد اور اب اجمیر شریف جیسے مسلم مزارات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تقسیم کے دنوں کی یاد تازہ کرنے والے اس فرقہ وارانہ تشدد کو جاری رکھنے کی ذمہ داری کون لے گا۔
اس دوران پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون نے بھی اس بات پر تنقید کی جسے انہوں نے "چھپے ہوئے مندروں کی ایجاد" کے ساتھ قومی جنون قرار دیا۔ ہندوستان اور دبئی کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے سجاد لون نے افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایکس پر طویل پوسٹ میں لکھا کہ "اجمیر روحانیت اور اتحاد کی علامت ہے، اس کے برعکس ہمارا ملک، جو کبھی روح پرور تھا، اب افسوسناک طور پر بے روح نظر آتا ہے، جو تفرقہ انگیز تعاقب سے چلتا ہے"۔ پھر بھی ایک اور چونکا دینے والا یہ مقدمہ اجمیر کی درگاہ شریف میں کہیں چھپے ہوئے مندر کے تعاقب میں دائر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم 2024ء کو الوداع کہہ رہے ہیں، ہم مصنوعی ذہانت کے دور میں ہیں۔ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور بطور ہندوستانی ہمیں ایماندار ہونے دیں، ہم نے کسی تکنیکی انقلاب میں حصہ نہیں ڈالا۔