اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ غزہ کے المیے میں گزشتہ 400 دنوں کے دوران کئی بار امید پیدا ہوئی کہ جنگ رک جائے گی، اور دونوں فریق، بشمول امریکہ، اپنی اپنی شرائط پر جنگ بندی پر راضی بھی نظر آئے، لیکن جنگ پھر بھی جاری رہی۔ اس صورتحال پر انکی جانب سے کئی ماہ قبل ہی تجزیہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ خیانتکار عرب ممالک حماس و حزب اللہ کے، امریکہ و اسرائیل سے بھی بڑے دشمن ہیں اور وہی جنگ بندی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہی خیانتکار انسانی المیے میں امریکہ و اسرائیل کے سرمایہ کار ہیں چونکہ ان کے منصوبے، مفادات اور سلامتی، خطے میں مزاحمتی تحریکوں کے خاتمے اور اسرائیل کی حمایت سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کو اس سال 14 اکتوبر کو شائع ہونے والی کتاب "وار" میں امریکی مصنف باب ووڈورڈ نے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ بھی پیش کیا ہے، جو جنگ کے آغاز میں امریکی وزیر خارجہ بلنکن کے اسرائیل اور عرب ریاستوں کے دوروں اور ان کے سربراہوں سے ملاقات کا احوال بیان کرتی ہے۔ کتاب میں لکھا گیا ہے کہ اردن، قطر، مصر، بحرین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے سربراہوں نے بلنکن سے نتن یاہو کا شکوہ کیا کہ اس نے فلسطین فنڈ ملنے پر حساسیت نہیں دکھائی اور نہ ہی غزہ کی مکمل ناکہ بندی کے مشورے پر عمل کیا، جس کی وجہ سے حماس مضبوط ہوتی چلی گئی۔ کتاب میں انکشاف کیا گیا کہ عرب حکمرانوں کا ماننا ہے کہ حماس صرف اسرائیل کے خلاف نہیں بلکہ اس کے نظریات عرب حکومتوں کے لیے بھی خطرہ ہیں، اسلئے تمام عرب سربراہان ، بشمول بن سلمان، حماس و حزب اللہ کے خاتمے تک جنگ بندی پر راضی نہیں ہیں۔ کتاب میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ جنگ کے اخراجات بھی بن سلمان اور عرب امارات برداشت کر رہے ہیں، جبکہ مصر، ترکی، اور آذربائیجان اسرائیل کو لاجسٹک مدد فراہم کر رہے ہیں۔
علامہ سید جواد نقوی نے مزید کہا کہ یہ انکشاف اس مصنف کی طرف سے ہے جس نے امریکہ کا مشہور اسکینڈل "واٹر گیٹ" بھی برملا کیا تھا، جس کے بعد امریکی صدر نکسن کو عوامی احتجاجات کے باعث مستعفی ہونا پڑا تھا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ عرب حکمرانوں کی جانب سے اتنی بڑی خیانت کے منکشف ہونے کے باوجود بھی مسلمان عوام اور علماء پر ایسی خاموشی ہے جیسی مردوں پر طاری ہوتی ہے۔ یہ بات بہت تعجب آور ہے کہ مسلم دنیا اس وحشت ناک انکشاف اور سفاکیت کے ساتھ جاری نسل کشی کو با آسانی ہضم کر گئی ہے۔