تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
طوفان کی کئی خاصیتیں ہوتی ہیں، اہم ترین خصوصیات یہ ہے کہ اسے روکا نہیں جا سکتا اور اس کے سامنے ٹھہرا بھی نہیں جا سکتا۔ طوفان الاقصیٰ کے واقعات کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ سچ میں ایک طوفان تھا۔ اس طوفان نے پورے خطے کی سیاست، دفاع، معیشت اور تعلقات کے نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیا۔ تقریباً آٹھ دہائیوں سے جاری مغربی بندوبست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ مغربیت کا حقیقی چہرہ دنیا کے امن پسند عوام کے سامنے آشکار کیا۔ اسرائیل کی کوشش تھی کہ وہ مکمل فلسطین پر قابض ہو جائے اور ڈکار بھی نہ مارے۔ ہم نسبتاً آزاد فضاوں میں رہنے والے غلام اور بے بس کر دی گئی قوموں کی اختیار کی گئی حکمت عملیوں کو قومی ریاستوں، آئین، دستور اور دیگر چیزوں کی زنجیروں میں جکھڑ کر دیکھتے ہیں۔اقوام متحدہ بھی غلام بنائی گئی اقوام سے ایسی ساری پابندیویاں اٹھا دیتی ہے اور انہیں یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنے مادر وطن کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کرسکتے ہیں۔
اسرائیل غرور میں مبتلا تھا کہ اقوام متحدہ میں اس کے پاس بذریعہ امریکہ ویٹو کا حق ہے، اس کے ذریعے کوئی قرارداد اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، کوئی میزائل راکٹ مجھ تک پہنچ نہیں سکتا اور آئے گا تو آئرن ڈوم سسٹم اسے تباہ کر دے گا۔ غزہ کو آہنی دیواروں سے پنجرہ میں مقید کر دیا گیا ہے۔ اب تھوڑا بہت شغل میلا چلتا رہے گا، باقی ہونا ہوانا کچھ نہیں ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اس طوفان کے ایک سال بعد کئی طرح کی سٹوریز پرنٹ کر رہا ہے کہ فول پروف انتظامات کے باوجود یہ کیسے ممکن ہوگیا؟ ان سٹوریز میں بھی اس دیوار جسے باڑ کہا جا رہا ہے، بڑا ذکر ہے۔ اسرائیلی جنرل زیو کا کہنا ہے جنگجوؤں نے آسانی سے باڑ عبور کی تھی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس دیوار کو ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا، اس میں نقائص موجود تھے۔ ’جیسا کہ آپ نے دیکھا، دو ٹرک آکر اسے (باڑ) دھکیل سکتے تھے۔ یہ باڑ کچھ بھی نہیں تھی۔
اگر وہاں 50 یا 60 میٹر کے علاقے میں بارودی سرنگیں ہی نصب کی گئی ہوتیں تو حماس کو اسرائیل میں داخل ہونے سے چند گھنٹوں کے لیے روکا جا سکتا تھا۔ اس بیان سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس دیوار کو ناقابل تسخیر سمجھ لیا گیا تھا، اس آپریشن نے اس کی بہت سے ناقابل تسخیر ہونے کی غلط فہمیوں کو توڑا ہے۔ اس ناقابل تسخیر ہونے کے زعم کے ٹوٹنے کا اعتراف بڑے پیمانے پر اسرائیل میں کیا جا رہا ہے۔ جنرل زیو کہتے ہیں کہ سات اکتوبر سے قبل جو کچھ ہو رہا تھا، اس کو سمجھنے میں ناکامی دراصل اسرائیلی فوج کے تکبرانہ رویئے کی وجہ سے تھی۔ یعنی وہ تکبرانہ خیال کہ حماس حملہ کرنے کی جرات نہیں کرے گا اور اگر کوشش کی بھی تو اس میں اتنی صلاحیت ہی نہیں۔ ہم 6 تاریخ کو یہ سوچ کر سوئے تھے کہ وہاں ایک بلی ہے اور ہم 7 تاریخ کو جاگے تو وہاں ایک شیر تھا۔
کچھ چیزیں دوست دشمن دونوں غلط سمجھ رہے ہوتے ہیں، ایسے میں کوئی طوفان ہی یہ بتاتا ہے کہ کس چیز میں کتنی طاقت ہے۔ اسرائیلی ڈرون ٹیکنالوجی کو بڑا اہم سمجھا جاتا ہے۔ جب اہل فلسطین ایک فوجی بیس پر قبضے کی کوشش کر رہے تھے، اندر سے کافی مزاحمت ہو رہی تھی، ایسے میں ایک اسرائیلی فائٹر ڈرون وہاں پہنچ گیا، مگر وہ اسرائیلی فوج کی کچھ مدد نہیں کرسکتا۔ بی بی سی نے اس کی وجہ بڑی دلچسپ بیان کی ہے۔ "آٹھ بجنے سے چند لمحے پہلے ایک اسرائیلی ڈرون "زک" وہاں پہنچا، تاہم اسرائیلی فوج کے بیان کے مطابق وہ اسرائیل اور حماس کے فوجیوں کے درمیان فرق نہیں کر پا رہا تھا، جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ اہداف پر حملہ کرنے میں سُست تھا۔" ٹیکنالوجی کو بھی شکست دی جا سکتی ہے اور اسے بھی کنفیوز کیا جا سکتا ہے۔ اس حملے نے عملی طور پر اسے ثابت کر دیا۔
اسرائیل نے اپنی فوجی شکست کو کم کرنے کے لیے یہ معلومات دی ہیں کہ دراصل اس وقت فوجی بیس پر موجود سپاہی مسلح نہیں تھے۔ عجیب بات ہے، غزہ کے ساتھ پچھلی دو دہائیوں سے حالت جنگ میں ہیں۔ اس کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور جو فوجی بیس پر موجود تھے، وہ مسلح نہیں تھے، صرف چند لوگ ہی مسلح تھے!!! اس اعلان پر اسرائیلی فوج کو تمغہ تو بنتا ہے۔ اس پر صرف ہمیں شک نہیں ہو رہا، اسرائیل کے اندر بھی اس بیانیے کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ اسرائیلی فوج کے آپریشنز ڈویژن کے سابق سربراہ جنرل اسرائیل زیو نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کی ملازمت کے دوران سرحدی علاقوں میں کبھی بھی غیر مسلح فوجی تعینات نہیں ہوتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ "سپاہی ہتھیار کے بغیر۔۔۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔"
یہ طوفان تھا، جس نے پوری دنیا میں اعلان کر دیا کہ فلسطین کا مسئلہ موجود ہے اور اہل فلسطین پوری طاقت کے ساتھ مزاحمت کر رہے ہیں۔ اس حملے نے یہ بھی واضح کر دیا کہ فلسطین کو آسانی سے اسرائیلیوں کو ہضم نہیں کرنے دیں گے۔اسرائیلی وزیراعظم پچھلے چار پانچ سال سے بین الاقوامی فورمز پر جس طرح نقشے اٹھا اٹھا کر دعوے کر رہا ہے کہ یہاں فلسطین نام کا کوئی ملک نہیں ہے، یہ بات تسلیم نہیں کی جائے گی۔ فلسطینیوں کو تسلیم کرنا پڑے گا، ان کی زمینیں انہیں لوٹانا ہوں گی، ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک بند کرنا ہوگا، مسلمانوں کے مقدس مقامات کی آئے روز توہین کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا۔ خود کو سپر اور چنیدہ قوم قرار دے کر دوسری اقوام کو ذلیل و نیچ سمجھنے کا غیر انسانی نظریہ ختم کرنا ہوگا۔
فلسطین کے مقامی یہودی، مسلمان اور مسیحی ہزاروں سالوں سے مل کر رہ رہے ہیں اور انہیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ صیہونیت کی غاصبانہ، ظالمانہ، جابرانہ غیر انسانی سوچ سے ہے، جو انسانیت کا قتل کر رہی ہے، جو حضرت موسیؑ کی تعلیمات کو پامال کر رہی ہے۔ اگر ایسے غیر انسانی اقدامات کو ترک نہیں کیا گیا تو ایسے طوفان آتے رہیں گے، آپ اس کے مقابل ایک لاکھ لوگوں کو قتل کر دیں، تاریخ آپ کو ہلاکوں خان کی طرح یاد رکھے گی۔ آج مفادات کی زد میں لوگ خاموش اور ممالک آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں، مگر بہت لمبی مدت تک ایسا نہیں ہوسکے گا۔
امریکی یونیورسٹیز اور کالجز سے اٹھنے والی آوازیں سن لینی چاہیں، یہ امریکہ کی اگلے نسل ہے، جو جلد اقتدار میں آئے گی اور اپنے ملک کے کیے گئے مظالم پر پشیمان ہوگی۔ آج کی اسرائیلی ریاست کے اقدامات ایسے ہی امریکیوں کو پڑھائے جائیں گے، جیسے آج جلیانوالہ باغ کا واقعہ برطانوی نصاب میں پڑھایا جاتا ہے۔ یاد رکھو، طوفان پوچھ کر نہیں آتے اور بڑے بڑے قلعے، دیواریں اور نظام بھی انہیں نہیں روک سکتے۔ ابھی تو آپ کا آئرن ڈوم بھی صرف چار سو سیکنڈ کے فاصلے پر ہے، جس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ آپ کو ہوگیا ہے۔ آپ کے اپنے جنرل، جنرل زیو اس دن کو ایک "بہترین طوفان" کے طور پر بیان کرتے ہیں۔