تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
طوفان الاقصیٰ آپریشن کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اس تجزیئے میں ہم حماس کے مجاہدین کی طرف سے طوفان الاقصیٰ کارروائی کو انجام دینے کی وجوہات اور نتائج پر بات کریں گے۔ 7 اکتوبر 2023ء کا دن فلسطین اسرائیل تنازعہ اور یہاں تک کہ مغربی ایشیائی خطے میں ایک تاریخی دن شمار ہوگا۔ صیہونی حکومت جو کہ مغربی ایشیائی خطے اور حتی کہ عالمی سطح پر بھی فوجی اور انٹیلی جنس کے میدان میں برتر طاقت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، 7 اکتوبر کو ناقابل تلافی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حماس کے جنگجوؤں نے طوفان الاقصیٰ آپریشن سے صیہونیوں کو زبردست دھچکا پہنچایا اور ان کی انٹیلی جنس اور فوجی حیثیت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ یہ حملہ اتنا اہم تھا کہ اس نے دنیا کو حیران کر دیا اور یہ موضوع دوسرے اہم بحرانوں اور جنگوں جیسے کہ روس-یوکرین جنگ اور کاراباخ بحران پر غالب آگیا۔ صیہونی حکومت نے گذشتہ سال غزہ کے عوام کے خلاف جو نسل کشی کی تھی، اس پر غور کرتے ہوئے یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن حماس کے جنگجوؤں کی طرف سے کیوں کیا گیا۔؟
اس سوال کا سب سے اہم جواب یہ ہے کہ اگرچہ صیہونی حکومت نے 1948ء میں مغرب بالخصوص امریکہ اور برطانیہ کی حمایت سے فلسطینی سرزمین پر قبضہ کیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف یہ قبضہ ختم نہیں ہوا بلکہ یہ حکومت فلسطینیوں کی سرزمین پر مکمل قبضے اور ان کی مادر وطن سے بے دخلی کے لیے بے تاب نظر آتی ہے۔ 1948ء کے بعد سے جب سے فلسطینی سرزمین پر انگریزوں کی حمایت سے جعلی صیہونی حکومت قائم ہوئی، فلسطینیوں کے حالات روز بروز مشکل تر ہوتے چلے گئے۔ ان پر نہ صرف بے شمار اور بار بار جنگیں مسلط کی گئیں، جن میں لاکھوں شہید اور لاکھوں زخمی ہوئے بلکہ صہیونیوں نے فلسطین بالخصوص بیت المقدس کو مکمل یہودیانے کو ترجیح دی اور فلسطین کے علاوہ کسی دوسری سرزمین میں فلسطینیوں کے لیے دوسرا وطن تجویز کرنا شروع کردیا۔ مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کی موجودگی روز بروز مشکل ہوتی گئی اور آئے روز اسرائیلی فوجیوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر فلسطینی نمازیوں کو بیت المقدس میں داخل ہونے سے روک دیا ہے اور نمازیوں پر عمر کی حد لگا دی ہے۔
اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کو گرفتار کرکے ان کی توہین کر رہے ہیں۔ صوتی بم پھٹا کر اور مسلمانوں کو خوفزدہ کرکے انہیں مسجد میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروپوں نے مختلف بیانات شائع کرکے اس کارروائی کی مذمت کی اور اسے کھلی جارحیت قرار دیا۔ اس کھلی جارحیت کے سامنے دنیا بھر کی رائے عامہ صرف ظاہری مذمت پر قناعت کر رہی تھی۔ انسانی حقوق کے چمکتے دمکتے نعروں کو نہ صرف فلسطینیوں کے لیے استعمال کیا گیا بلکہ صہیونیوں کے وسیع تشدد کی حمایت کی گئی۔ ایسے میں حماس کے جنگجوؤں نے صیہونی حکومت کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام دیا۔ طوفان الاقصی آپریشن کو انجام دینے کاپہلا اور اہم عنصر فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کی کابینہ کے انتہائی سخت ترین اقدامات تھے۔ 2022ء میں بینجمن نیتن یاہو کی قیادت میں صیہونی حکومت کی تاریخ کی انتہائی انتہاء پسند، نسل پرست اور انتہا پسند حکومت کا آغاز، اس آپریشن کا ایک اہم محرک بن گیا۔
یہ حکومت، جو کہ وائٹ ہاؤس کے حکام کے مطابق بھی اسرائیل کی تاریخ کی سب سے زیادہ سخت حکومت تھی، جس نے اقتدار سنبھالتے ہی پہلے دن سے ہی اپنی فلسطین اور اسلام دشمن پالیسیوں اور اقدامات جو انتہاء پسندی اور نسل پرستی پر مشتمل تھیں، ان کو ظاہر کردیا۔ انتہائی ظالمانہ انداز سے مقبوضہ سرزمین میں فلسطینی عربوں اور مسلمانوں پر ظلم و ستم شروع کر دیا۔ جب اس حکومت نے اقتدار سنبھالا تو فلسطینیوں اور صیہونیوں کے درمیان کشیدگی میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ہر روز فلسطینیوں کے خلاف ان کے وطن میں تشدد میں اضافہ ہوتا گیا۔دوسری وجہ طوفان الاقصیٰ سے پہلے قدس میں شیخ جراح کے محلے میں صیہونیوں اور اسرائیلی ایجنٹوں کو اپنے گھر فروخت کرنے سے انکار کرنے والے فلسطینیوں کے درمیان آئے روز نئے تنازعات جنم لینے لگے۔ صیہونی حکومت نے شہر کی ترقی کے بہانے ان گھروں کے مکینوں کو اپنے گھر خالی کرنے پر مجبور کیا۔ ان جرائم سے حماس کے جنگجوؤں کا طوفان الاقصیٰ آپریشن انجام دینے کا عزم بلند ہوا۔
طوفان الاقصیٰ کی تشکیل کا تیسرا اہم عنصر صیہونی حکومت کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے نام نہاد ابراہیمی معاہدہ تھا۔ پہلے امارات اور پھر بحرین نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا شروع کیا۔ اسرائیلی اور سعودی حکام کی خفیہ ملاقاتوں کے بعد میڈیا نے بتایا کہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کے قریب ہیں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے طوفان الاقصیٰ سے چند روز قبل اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آنے والے ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے، تل ابیب اور ریاض کے درمیان تعلقات کا معمول پر آنا ایک متوقع مسئلہ تھا، لیکن جو چیز فلسطینیوں کے عدم اطمینان کا سبب بنی وہ مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈالنا اور صیہونی حکومت کی جانب سے اس صورت حال کو فلسطینیوں کے خلاف تشدد میں اضافے کے لیے استعمال کرنا تھا۔
امارات اور بحرین کے درمیان پہلے مرحلے کو معمول پر لانے کے بعد قابض حکومت نے عرب دنیا میں اپنی مرضی کا پراپیگنڈہ شروع کردیا۔ اماراتی حکام کا دعویٰ تھا کہ تعلقات کے معمول پر آنے سے فلسطینیوں کے لیے مزید امن و سلامتی آئے گی، لیکن طوفان الاقصیٰ سے قبل فلسطینیوں پر دو 12 روزہ اور 4 روزہ جنگیں مسلط کی گئی تھیں، نیتن یاہو کی انتہاء پسند کابینہ نے اقتدار میں آنے کے بعد، اور قدس کو مکمل یہودیانے اور یہاں تک کہ اس پر قبضہ تک اس نے مغربی کنارے کو اپنے ایجنڈے پر رکھا جہاں امن کی کوئی خبر نہیں تھی۔ متذکرہ وجوہات کے مطابق فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) نے بھی ایک بیان میں طوفان الاقصیٰ آپریشن کے انجام پانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ غاصبوں اور استعمار کے ساتھ ہماری قوم کی جنگ 7 اکتوبر کو شروع نہیں ہوئی بلکہ یہ 105 سال پہلے شروع ہوئی تھی۔
ہماری قوم نے 30 سال قبل برطانوی استعمار میں اور 75 سال صیہونی قبضے میں گزارے ہیں۔ کئی دہائیوں سے ہماری قوم طرح طرح کی غنڈہ گردی، جبر، بنیادی حقوق سے محرومی اور نسلی امتیاز کی پالیسیوں کے اطلاق سے نبرد آزما ہے۔ اس بیان کے تسلسل میں کہا گیا ہے کہ غزہ پٹی کو 17 سال پہلے سےاب تک سخت محاصرے کا سامنا ہے اور یوں یہ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہوگئی ہے، بس فرق یہ ہے کہ اس کی چھت نہیں ہے۔ غزہ کی پٹی کو پانچ تباہ کن جنگوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ہر بار اسرائیل نے ابتداء کی ہے۔ 2000ء سے ستمبر 2023ء تک قابضین نے 11,299 فلسطینیوں کو جاں بحق اور 156,768 دیگر کو زخمی کیا، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن فلسطین کے مسئلے کو تباہ کرنے کے لیے بنائے گئے منصوبوں کا سامنا کرنے کے لیے ایک ضروری قدم اور قدرتی ردعمل تھا۔
طوفان الاقصیٰ تل ابیب کے فلسطینی سرزمین پر تسلط اور مسجد اقصیٰ پر اپنی حاکمیت کے استعمال کے منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ طوفان الاقصیٰ غزہ کی پٹی کے ظالمانہ محاصرے کو ختم کرنے کے لیے ایک ضروری اقدام تھا اور اسے قابضین سے آزادی کے فریم ورک میں ایک فطری قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ بہرحال 7 اکتوبر 2023ء کو فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی حکومت کے کئی دہائیوں کے جرائم کے جواب میں غزہ سے اسرائیل کے خلاف "طوفان الاقصیٰ" کے نام سے ایک حیران کن آپریشن کیا، جس کے دوران صیہونی حکومت کو بھاری نقصان پہنچا۔ اس پیچیدہ آپریشن، جس نے اسرائیلی سکیورٹی اور جاسوسی اداروں کو حیران کر دیا تھا، اس کی وجہ سے اسرائیل نے انتقامی کارروائی کے بہانے غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا، جو اب تک جاری ہے اور اب یہ سلسلہ لبنان تک پھیل گیا ہے۔