0
Friday 4 Oct 2024 21:37

یورپ کے دوغلے معیار

یورپ کے دوغلے معیار
تحریر: مرتضیٰ مکی

اسرائیلی حکومت کے دہشت گردانہ اور جارحانہ اقدامات کے خلاف ایران کے جائز فوجی جواب نے یورپیوں کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ اب وہ امن پسند ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ لبنان کی حزب اللہ کے دفاعی اقدامات اور صیہونی حکومت کی جارحیت کے جواب میں ایران کے اقدام پر جرمن چانسلر اولاف شولٹز نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کے لیے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعاون کا وعدہ کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یورپ، بالخصوص جرمنی جیسی اس براعظم کی بڑی حکومتیں، فلسطینی سرزمین پر غاصب صیہونیوں کی جارحیت کے خلاف کبھی بھی غیر جانبدار اور دیانت دار ثالث نہیں بنیں۔ یہ پالیسی گذشتہ سال 7 تاریخ کو طوفان الاقصیٰ اور غزہ پر صیہونی حملے کے بعد کی پیش رفت تک محدود نہیں ہے۔ 1948ء میں فلسطین میں جعلی اسرائیلی حکومت کے اعلان کے بعد سے یورپیوں نے ہمیشہ صیہونیوں کا دفاع کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فلسطین پر قابض صہیونیوں نے اس حمایت کی بنیاد پر کسی جرم سے دریغ نہیں کیا۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد اولاف شلٹز سمیت یورپی حکومتوں کے کئی سربراہان تل ابیب پہنچے اور اسرائیل کے لیے اپنی ہر طرح کی حمایت کا اعلان کیا۔ انہوں نے صہیونیوں کے جرائم کا ذکر کیے بغیر فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک سے کہا کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کو بغیر کسی پیشگی شرط کے رہا کر دیں۔ یہ ایسے وقت کہا گیا ہے، جب اقوام متحدہ کے حکام اور مغرب میں انسانی حقوق کے محافظوں کے مطابق صہیونیوں نے غزہ میں ایسا کوئی جرم نہیں ہے، جو انجام نہ دیا ہو۔ صیہونی حکومت کے رہنماؤں کا برتری اور نسل پرستانہ نظریہ اس طرح ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ ایران کی طرف سے اپنی خود مختاری اور ارضی سالمیت کے لئے انجام دیئے گئے مشترکہ دفاع کی مذمت کیوں نہیں کرتے، اس جرم میں صیہونیوں نے ان کے مقبوضہ فلسطین میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔

صہیونیوں کا یہ برتری اور نسل پرستانہ نظریہ مغربی حکومتوں میں بھی غالب ہے۔ مغربی حکومتیں خود کو دنیا میں انسانی حقوق کی محافظ سمجھتی ہیں لیکن انسانی حقوق کی حوالے سے یورپی حکومتوں کے دعوے صہیونی جرائم اور فلسطینیوں کی اپنی آبائی سرزمین کے جائز دفاع اور صیہونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے خلاف انجام دیئے گئے ردعمل سے جانچے جا سکتے ہیں۔ یورپی حکومتیں صہیونی جارحیت کے خلاف کھڑے ہونے کی وجہ سے فلسطین اور لبنان کی مزاحمتی تحریکوں کو دہشت گرد قرار دیتی ہیں، لیکن وہ صیہونی جارحیت اور فلسطین و لبنان میں دسیوں ہزار انسانوں کے قتل عام کو صیہونیوں کا جائز دفاع سمجھتے  اور اس کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ یہ پالیسی برتری اور نسل پرستی کے سوا کیا ہے۔؟

مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے ایک یہودی کی موت کے سامنے ان کی انسان دوستی کی آواز آسمان تک پہنچ جاتی ہے، لیکن روزانہ دسیوں ہزار فلسطینی اور لبنانی خواتین اور بچوں کے قتل کے سامنے وہ افسوس کا ایک لفظ بھی نہیں کہتے۔ یورپی ممالک کا یہ کردار ایران کے جائز اقدام اور درجنوں بیلسٹک میزائل داغنے اور کئی اسرائیلی فوجی اڈوں اور انٹیلی جنس مراکز کو نشانہ بنانے کے چند گھنٹوں بعد دیکھا جا سکتا ہے۔ یورپی کمیشن کے صدر ارسولا وان ڈیرلین نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا: "میں ایران کی طرف سے اسرائیل پر بیلسٹک میزائلوں کے حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ اس طرح کے اقدامات علاقائی استحکام کو خطرے میں ڈالتے ہیں اور انتہائی غیر مستحکم صورتحال میں تناؤ اور کشیدگی پھیلاتے ہیں۔"

مغربی ایشیائی خطے میں امن و استحکام کے حوالے سے فکرمند انہی یورپی حکام نے اس وقت کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، جب دمشق میں ایرانی قونصل خانے کو صیہونیوں نے نشانہ بنایا اور کئی ایرانی فوجی مشیر شہید ہوئے، یا اس وقت جب ایران کے سرکاری مہمان اسماعیل ہنیہ کو تہران میں قتل کیا گیا۔ لیکن دوسری طرف ایران کا اپنی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے جائز دفاع میں کیا گیا اقدام انہیں خطے میں عدم استحکام کا باعث بنتا نظر آتا ہے۔ یورپیوں کی اس دوغلی ذہنیت اور نسل پرستی کا ایک ہی نتیجہ برامد ہو رہا ہے اور وہ اشتعال انگیز صیہونیوں کی حمایت کرکے خطے میں عدم استحکام کو ہوا دینا۔ اس دوہری پالیسی کی وجہ سے  یورپی حکومتیں اپنے امن پسند دعووں کے باوجود فلسطین اور لبنان میں صہیونیوں کے تمام جرائم میں برابر کی شریک ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1164594
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش