0
Friday 20 Sep 2024 14:26

افغان مہاجرین اور ایران

افغان مہاجرین اور ایران
تحریر: ایم وقاری

اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے نے اعلان کیا کہ ایران 60 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کی موجودگی پر سالانہ 10 بلین ڈالر سے زائد رقم ادا کرتا ہے، لیکن عالمی برادری اس فوری مسئلہ پر توجہ نہیں دے رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے سعید ایروانی کے بیانات اس لیے اہمیت کے حامل ہیں کہ انسانی حقوق کے دفاع کا دعویٰ کرنے والے ممالک افغان مہاجرین کے مالی، سماجی، سکیورٹی، تعلیمی اور دیگر امور کی کوئی پرواہ کیے بغیر افغان تارکین وطن کے میزبانوں کے خلاف جھوٹے الزامات لگاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایران اور افغانستان کی دو قوموں کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس طرح کے الزامات کا سیاسی فضا کو آلودہ کرنے کے علاوہ کوئی مقصد نہیں ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ کئی لحاظ سے اہم ہے، اول یہ کہ جو ملک مستحکم اور محفوظ ہو، وہاں کے شہریوں کو بے گھر نہیں سمجھا جاتا اور اقوام متحدہ کو ان ممالک کے شہریوں کی وطن واپسی کے لیے زمین فراہم کرنی چاہیئے، دوم، افغانستان کے پڑوسی ممالک خصوصاً اسلامی جمہوریہ ایران نے لاکھوں تارکین وطن اور افغان مہاجرین کو دنیا کے دیگر حصوں بالخصوص یورپی ممالک میں بھیجنے سے روک رکھا ہے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ افغان شہریوں کی نقل مکانی کی بڑی وجہ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کی مداخلت پسندانہ پالیسیاں ہیں۔

افغانستان کے قابض اور استعماری ممالک نہ صرف اس ملک کے حالات پر توجہ نہیں دیتے بلکہ پروپیگنڈہ اور میڈیا کا سہارا لے کر ہمسایہ ممالک اور میزبانوں کو بدنام کرکے اپران اور افغان قوموں میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو غیر قانونی تارکین وطن کی آمد سے پیدا ہونے والے کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے ہمسایہ اور اسلامی رسم و رواج کی بنیاد پر اقتصادی پابندیوں کے تباہ کن اثرات کے باوجود چار دہائیوں سے زائد عرصے سے لاکھوں افغان تارکین وطن کی میزبانی کر رہا ہے۔ افغانستان میں سیاسی اور سلامتی کے حالات کی تبدیلی اور افغانستان کی تعمیر نو میں اپنے شہریوں کی شرکت کی ضرورت کے پیش نظر نہ صرف پڑوسی ممالک بلکہ عالمی برادری بھی ان کی وطن واپسی کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔

افغان تارکین وطن ایران میں رہ کر مختلف ملازمتوں اور پیشوں سے واقف ہوچکے ہیں اور وہ افغانستان کی تعمیر نو میں بہت کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس دوران، طالبان، افغانستان کے حکمران کی حیثیت سے، پڑوسی ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو قبول کرنے کی بھاری ذمہ داری کا سامنا کریں اور یہ اس گروپ کی حکومتی ذمہ داریوں کا ایک حصہ ہے، جسے بدقسمتی سے طالبان قبول نہیں کرنا چاہتے۔ اسی لیے اسلامی جمہوریہ ایران کا کہنا ہے کہ طالبان کو نہ صرف افغان مہاجرین کی واپسی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیئے بلکہ عالمی برادری کو بھی ایران اور پاکستان جیسے ممالک کو خاطر خواہ اور مستحکم مدد فراہم کرنی چاہیئے، تاکہ وہ  افغانستان سے مسلسل آنے والے مہاجرین کی وجہ سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرسکیں۔
خبر کا کوڈ : 1161245
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش