0
Wednesday 18 Sep 2024 01:16

اسرائیلی حکام اور افریقی یہودی

اسرائیلی حکام اور افریقی یہودی
تحریر: احمد کاظم زادہ

غزہ کی جنگ میں افواج کی کمی کو پورا کرنے کے لیے صہیونی فوج نے افریقی تارکین وطن کو بھرتی کرنا شروع کر دیا ہے اور انہیں شہریت دینے کے وعدے کے ساتھ فوجی مشنوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ "Haaretz" کے مطابق، اسرائیلی حکومت اپنی افواج کی تعداد کو برقرار رکھنے اور خطرناک کارروائیوں میں اپنے فوجیوں کی حفاظت کے لیے افریقی مہاجرین کو غزہ میں خطرناک کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ صیہونی حکومت کے فوجی حکام نے Haaretz کو بتایا کہ یہ منصوبہ دفاعی ادارے کے قانونی مشیروں کی رہنمائی میں انجام دیا گیا ہے۔ اس وقت اسرائیل میں تقریباً 30,000 افریقی مہاجرین موجود ہیں۔ انہیں تارکین وطن مخالف سیاست دانوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے، جن میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو بھی شامل ہیں، جو انہیں باقاعدگی سے "گھس بیٹھیئے" کہتے ہیں۔

صیہونی حکومت کی نسل پرستی اور تعصب نہ صرف فلسطینی عوام کے خلاف جاری ہے بلکہ ایتھوپیا جیسے افریقی ممالک سے مقبوضہ علاقوں میں ہجرت کرنے والے یہودی بھی شدید ترین امتیازی سلوک کی زد میں ہیں۔ اسرائیل میں ایتھوپیا کے یہودیوں کو فلاشا کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں کا یہ گروہ یہودیت میں کسی بھی روایتی تقسیم کے تحت نہیں آتا۔ اس میں اشکنازی اور سیفاردی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ صہیونیوں نے انہیں بطور یہودی قبول نہیں کیا اور اسی وجہ سے وہ بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔

مقبوضہ علاقوں میں رہنے والی افریقی اور ایتھوپیا کی آبادی کیخلاف کھلا نسلی امتیاز
مقبوضہ علاقوں میں رہنے والی افریقی اور ایتھوپیا کی آبادی ہمیشہ کھلے اور پوشیدہ نسلی امتیاز کا شکار رہتی ہے اور سماجی طور پر تیسرے درجے کے شہری کے طور پر ناموافق حالات میں رہتی ہے۔ ان لوگوں کی زیادہ تر ملازمتیں ویٹر، کلینر اور گارڈز ہیں اور اس گروپ کے تقریباً 41% خاندان غربت میں رہتے ہیں۔ افریقی یہودیوں کے اس گروہ کے ساتھ امتیازی سلوک اتنا برا ہے کہ صیہونیوں کی آبادی میں اضافے اور بچے پیدا کرنے کی بہت سی کوششوں کے باوجود ایسی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت کی جانب سے ایتھوپیا کی خواتین میں حمل روکنے کے لیے جان بوجھ کر اقدامات کیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے افریقی یہودیوں کو ان کی جلد کی رنگت اور نسل کی وجہ سے اسرائیلی پولیس اور مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے دیگر نسل پرست شہریوں کی طرف سے تشدد اور جرائم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے یا پھر انہیں شدید زدوکوب کیا جاتا ہے۔ اسرائیل میں نسل پرستی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے اس گروپ کی طرف سے بڑے پیمانے پر مظاہرے بھی کیے جاتے ہیں۔ دسمبر 2017ء میں، اسرائیل کی Knesset نے پناہ گزینوں کی جبری ملک بدری پر ایک قانون بھی پاس کیا اور اسرائیل نے پناہ گزینوں کو دو آپشنز دیئے: " اسرائیل چھوڑ دیں یا جیل جائیں۔"

تاہم غزہ جنگ کے بعد اسرائیلی فوج کی قلت میں اضافے کی وجہ سے اس حکومت نے وقتی اور عارضی طور پر اپنا نقطہ نظر تبدیل کیا ہے، تاکہ وہ اپنی کمی کو افریقی باشندوں سے پورا کرسکیں۔ اس سے قبل صیہونی حکومت کے سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن ادارے "کان" نے صیہونی حکومت کے وزیر جنگ یواف گیلنٹ کے حوالے سے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ اسرائیلی فوج کو 10 ہزار اضافی فوجی اہلکاروں کی فوری ضرورت ہے۔ نیز صیہونی میڈیا ایجنسی نے اطلاع دی ہے کہ فوج زمینی شعبے میں افواج کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی طرح بحریہ کے سپاہیوں کو بھی زمینی لڑائی کے لیے تربیت دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ، اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ "فوجی اہلکاروں کی کمی کی وجہ سے، یواف گیلنٹ نے ریزرو فوجیوں اور ایسے لوگوں کو بلایا ہے، جنہیں پہلے فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔"

غزہ اور شمالی محاذ کی جنگ میں فوج کی ہلاکتوں میں اضافے، فوج میں بھرتی سے انحراف، الٹی ہجرت میں اضافہ وغیرہ صہیونی آرمی میں فوجیوں کی کمی کی دیگر وجوہات ہیں۔ صہیونی کی سرکاری رپورٹوں میں 7 اکتوبر 2023ء کے واقعات اور غزہ کی پٹی کے خلاف جنگ کے آغاز کے بعد مقبوضہ علاقوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے والے صہیونیوں کی تعداد میں اضافے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ Ha'aretz کے مطابق حالیہ مہینوں میں ہر طرف سے مقبوضہ علاقے چھوڑنے کے خواہشمند لوگوں کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے گھر میں آگ لگی ہے اور انہیں چھت گرنے سے پہلے انہیں وہاں سے نکل جانا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ انہیں اپنے بچوں کو بچانا چاہیئے اور مقبوضہ زمینوں سے فرار ہونا چاہیئے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

صہیونی اخبار "یدیوت احرونوت" کے شائع کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، خطرات میں اضافے، غزہ جنگ کے جاری رہنے، معیار زندگی میں گراوٹ اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث مقبوضہ فلسطین چھوڑنے والے آباد کاروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ Yediot Aharonot نے قابض حکومت کے مرکزی شماریات کے مرکز کے حوالے سے لکھا ہے کہ پچھلے سال کے مقابلے میں الٹی ہجرت کی تعداد 20 فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ مقبوضہ فلسطین کے باہر "اسرائیلیوں" کے لیے کالونی بنانے کے رجحان میں گذشتہ دو سالوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ صیہونی حکومت نے ضرورت کے پیش نظر اور صرف اپنی فوجی قوتوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے افریقیوں کی طرف رجوع کیا اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد ان کے خلاف دوبارہ جابرانہ اقدامات شروع کر دے گی۔
خبر کا کوڈ : 1160753
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش