تحریر: مجید وقاری
اسلامی جمہوریہ ایران کے کسٹمز کے اعلان کے مطابق 1403 شمسی کے پہلے چار مہینوں یعنی مارچ 2024ء سے لیکر اب تک پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی تعلقات کا حجم ایک ارب ڈالر سے زائد تک پہنچ گیا۔ اس طرح ایران کے 15 پڑوسیوں میں پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل تھا، جنہوں نے اس عرصے میں سب سے زیادہ ایرانی سامان خریدا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران اور پاکستان کے درمیان صنعتی تعمیرات، توانائی، تکنیکی اور انجینئرنگ خدمات، زراعت، لائیو اسٹاک اور سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں بہت سی صلاحیتیں موجود ہیں۔ ایران پاکستان تجارتی تعلقات کے اعدادوشمار بڑھ رہے ہیں، جبکہ شہید سید ابراہیم رئیسی کے دورہ اسلام آباد کے دوران تہران اور اسلام آباد نے سالانہ 10 بلین ڈالر کی سالانہ تجارت کو ہدف بنانے کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔
پاکستان اور ایران نہ صرف پڑوسی ہیں بلکہ(ای سی او) علاقائی اقتصادی تعاون تنظیم کے رکن ہیں اور ان کے درمیان اقتصادی تعلقات کی ترقی اس علاقائی تعاون تنظیم کو بھی تقویت دے سکتی ہے۔ دریں اثناء، اسلامی ممالک پر مغرب کے دباؤ کو دیکھتے ہوئے ان ممالک بالخصوص ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون کو مزید مضبوط بنانا ضروری ہے۔ اسلام آباد اور تہران کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی ترقی کے حل بشمول سرحدی منڈیوں کی ترقی کے لیے کسٹم رکاوٹوں کو ہٹانے اور ہر ممکن حد تک آسان کرنے والے تجارتی میکانزم کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، جو دونوں کے زیر غور اقدامات میں شامل ہے۔ اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے مشترکہ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے فریقین کی طرف سے عملی سنجیدگی ضروری ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان سمیت 14ویں حکومت کے عہدیداروں نے حال ہی میں پڑوسیوں بالخصوص پاکستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی پالیسی کو جاری رکھنے پر تاکید کی ہے اور اس میں اضافے کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کیا ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ تجارت کی مقدار بڑھانے کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعاون کی ترقی کے لیے ایک واضح افق تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اختلافات بالخصوص دہشت گردی اور اسلام آباد پر واشنگٹن کے دباؤ کے حوالے سے، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ اس ملک کے اقتصادی اور مالیاتی اثرات کو کم کیا جاسکے۔ امریکہ کا دباؤ کم کرکے ایران سے توانائی کے شعبے میں تعلقات کو فروغ دیا جائے۔
اس دوران، توانائی کا شعبہ ان شعبوں میں سے ایک ہے، جو دوطرفہ تجارت کی مقدار کو نمایاں طور پر بڑھانے اور پاکستان کے توانائی کے مسائل اور چیلنجز کو مستقل طور پر ختم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے اسلام آباد کی مرضی اور اہداف کا تعین بیرونی دباؤ کے بغیر قومی مفادات کی بنیاد پر کرنے کی ضرورت ہے۔ دوطرفہ تعلقات کی ترقی اور مضبوطی کا ایک اہم ترین شعبہ توانائی کا شعبہ ہے، لیکن بدقسمتی سے امریکہ کی مداخلت اور دباؤ کی وجہ سے اب تک التوا کا شکار ہے۔