ترتیب و تنظیم: علی واحدی
نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں نے حماس کی تباہی اور صہیونی قیدیوں کی رہائی سمیت اسرائیل کے تمام جنگی اہداف حاصل کرنے کے لیے فوجی دباؤ کی پالیسی پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا تھا، لیکن اب وہ دیکھتے ہیں کہ اس کے نتائج بالکل برعکس نکلے ہیں اور کئی مزاحمتی محاذوں کی آگ نے اس حکومت کو گھیر لیا ہے۔
اسلام ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے صیہونی غاصب حکومت نے اس جنگ میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے "فوجی دباؤ" کا استعمال کرتے ہوئے ایک منظم پالیسی اپنا رکھی ہے، ان اہداف میں سرفہرست غزہ میں مزاحمت کی تباہی اور صہیونی قیدیوں کی رہائی ہے، وہ یہ کام فوجی کارروائیوں کے ذریعے انجام دینے کے خواہاں ہیں۔
صیہونی فوجی دباؤ کیخلاف مزاحمت کی جنگی حکمت عملی
اس مقصد کے حصول کے لیے صیہونی حکومت نے فلسطینی عوام اور اس کی مزاحمت بالخصوص تحریک حماس پر شدید فوجی دباؤ ڈالا اور اس فوجی دباؤ کے ساتھ ہی غزہ میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے اپنی جنگی حکمت عملیوں میں تبدیلیاں کیں۔ مزاحمتی بلاک نے اپنے جنگی طریقوں کو بٹالینز اور بریگیڈز میں فعال رکھنے کی بجائے انفرادی آپریشنز یا چھوٹی تعداد کے ساتھ گروپ آپریشنز کو اپنا کر اسے وسیع علاقوں میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ غزہ پٹی کے مختلف محوروں میں صیہونی فوجیوں کے خلاف مسلسل گھات لگانا مزاحمت کی اس جنگی حکمت عملی کے واضح نتائج میں سے ایک ہے اور اس کے علاوہ ہم غزہ سے باہر بالخصوص پورے مغربی کنارے نیز تل ابیب میں انفرادی مزاحمتی کارروائیوں میں توسیع کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
مزاحمت نے اپنی کارروائیوں کو گروہی سطح سے انفرادی سطح پر جو منتقل کیا ہے، اس کا مطلب مزاحمت کی ناکامی یا زوال نہیں ہے بلکہ فلسطینی مزاحمت کے مختلف گروہ ایک ہی کمان کے تحت اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ فوجی، میڈیا اور سکیورٹی لاجسٹک خدمات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس وقت مزاحمت کے سیاسی اور فوجی فیصلوں کے درمیان اعلیٰ سطح پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
جنگی اہداف کے حصول میں اسرائیل کے فوجی دباؤ کی ناکامی
آیا اسرائیل کی فوجی دباؤ کی پالیسی نے اس حکومت کو مطلوبہ نتائج دیئے یا نہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ صیہونی نہ تو غزہ میں مزاحمت کو ختم کرسکے اور نہ ہی اپنے قیدیوں کو رہا کرسکے اور جب بھی اسرائیلی فوج نے آزادی کی تلاش میں فوجی آپریشن شروع کیا تو ان کارروائیوں میں ان قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کی جانیں گئیں۔ گزشتہ ہفتے 6 اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی دریافت، جس نے نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے خلاف صہیونی آباد کاروں میں شدید غم و غصے کی لہر کو جنم دیا، قیدیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کی فوجی دباؤ کی پالیسی کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ غزہ کی جنگ کے 11 ماہ گزرنے کے بعد بھی صیہونی حکومت کا فوجی دباؤ اس علاقے میں سیاسی اور حکومتی حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکا۔
صیہونی حکومت مختلف سازشوں اور امریکہ کی ہمہ جہت حمایت کے باوجود غزہ میں حماس کی جگہ دوسری حکومت نہیں لا سکی۔ غزہ کی پٹی میں ابھرنے والے مشکل اور پیچیدہ حالات کے باوجود اس پٹی پر اب بھی حماس کی حکومت ہے۔ دوسری جانب صیہونی حکومت غزہ پٹی کے شہری اور اہم انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا کر غزہ کے عوام کو حماس کے خلاف بھڑکانے میں ناکام رہی، جس میں صحت کے بنیادی ڈھانچے اور دیگر بنیادی ڈھانچے بھی شامل ہیں، جو اس علاقے میں زندگی کے آثار کو تباہ کرنے کا باعث بنے۔ تقریباً ایک سال کی تباہ کن جنگ کے بعد، جو قابض صیہونی حکومت نے ان کے خلاف شروع کی تھی اور اس علاقے کو جہنم بنا دیا تھا، غزہ کے لوگ اب بھی اپنی سرزمین پر قائم رہنے پر اصرار کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ اسرائیل ہی ہے، جو گزشتہ سات دہائیوں سے فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اور مزاحمت نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے دفاع کا کردار ادا کیا ہے اور اس راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں، سیاسی سطح پر صیہونی حکومت کے فوجی دباؤ کی ناکامی اس حقیقت سے جنم لیتی ہے کہ اس حکومت کے حکام نے مسئلہ فلسطین اور اس سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کی حقیقت کو نظر انداز کرنے اور انکار کرنے کی کوشش کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی اچھی طرح جانتے ہیں کہ زیر قبضہ علاقے کی آزادی ممکن ہے اور گزشتہ دہائیوں سے جاری مزاحمت نے فلسطینیوں کی آزادی اور آزادی کے لیے سب کچھ کیا ہے۔ فلسطینی عوام اس بات پر قائل ہیں کہ ایک آزاد ملک اور اس میں امن و استحکام کے ساتھ رہنے کے لیے مزاحمت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
فلاڈیلفیا کے محور میں نیتن یاہو کے فوجی دباؤ کا جھوٹ
گزشتہ ہفتوں کے دوران جنگ بندی کے معاہدے اور قیدیوں کے تبادلے کی باتوں میں اضافہ ہوا، نیتن یاہو نے مصر اور غزہ کی سرحد پر فلاڈیلفیا کے محور میں رہنے کے اصرار کو مزاحمت کے خلاف فوجی دباؤ کی حکمت عملی سے جوڑ دیا۔ اس محور میں اسرائیلی فوج کی موجودگی حماس کی آکسیجن کی شریانوں کو منقطع کرنے کا باعث بنتی ہے اور اس تحریک کی ہتھیاروں تک رسائی کو روک کر غزہ میں مزاحمت کے خلاف فوجی دباؤ کی حکمت عملی کو کارگر بنا سکتی ہے، لیکن سب سے اہم حقیقت جس سے نیتن یاہو گریز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت بالخصوص دو دہائیاں میں ہتھیاروں کی تیاری میں کافی طاقت حاصل کرچکی ہے اور مزاحمتی بلاک کی مدد سے اسے مسلح کرنے میں کافی حد تک طاقت ملی ہے۔
فلسطینی میزائل سمیت مختلف ہتھیاروں کی تیاری میں خود پر انحصار کرتے ہیں۔ 2008 کے بعد فلسطینی انجینئروں نے راکٹوں کے میدان میں نمایاں انداز میں کام کرنا شروع کیا اور مختلف رینج والے میزائل بنائے، جن میں اینٹی آرمر اور اینٹی فورٹیفیکیشن میزائل بھی شامل ہیں، جن میں سے ایک یاسین 105 اینٹی آرمر میزائل ہے، جو کہ مکمل طور پر تباہ کن ہے۔ فلسطینی ہتھیار اور غزہ میں تیار کردہ 100% لانگ رینج سنائپر رائفلیں غزہ کے اندر بنائے گئے ہتھیاروں میں سے ہیں، جنہیں فلسطینی جنگجو قابض فوج کی زمینی افواج کے ساتھ لڑائی میں استعمال کرتے ہیں۔
اسی لیے نیتن یاہو کا حماس پر فوجی دباؤ ڈالنے کے لیے فلاڈیلفیا کے محور میں رہنے پر اصرار جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے اور اسرائیلی فوج کے کمانڈر اور اس حکومت کی سکیورٹی سروسز اچھی طرح جانتے ہیں کہ صیہونی فوج کی موجودگی حماس پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوسکتی ہے۔ فلاڈیلفیا محور فلسطینی مزاحمت کی مسلح صلاحیتوں کو زندہ کرنے کی تزویراتی حقیقت ہے۔ جو اس جنگ کے دوران یا بعد میں تبدیل نہیں ہوگا۔ اس بنا پر بعض کا خیال ہے کہ نیتن یاہو اور اتحادی کابینہ میں شامل ان کے اتحادیوں کا منصوبہ غزہ کی پٹی پر قبضہ کرکے اس پٹی میں فوجی حکمرانی قائم کرنا ہے اور اسی وجہ سے نیتن یاہو فلاڈیلفیا اور نیٹسرم کے محور سے کسی بھی انخلاء کے خلاف ہیں۔ کیونکہ ان محوروں میں رہنے سے غزہ کے پورے جغرافیہ پر فوجی دباؤ کا عمل آسان ہو جاتا ہے۔
اسرائیل مزاحمتی محاذوں کی آگ میں گھرا ہوا ہے
حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں موجود اسرائیلی افواج کی تعداد اس حکومت کو مکمل طور پر غزہ پر قابض اور تسلط کے لیے کافی نہیں ہے۔ صہیونی فوج کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی حکمرانی کے قیام کے لیے اس پٹی میں کم از کم 5 فوجی ڈویژنوں کی تعیناتی کی ضرورت ہے، جبکہ اس وقت غزہ میں دو سے زیادہ ڈویژن فوجی موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج کو غزہ کی جنگ کے ساتھ ہی حزب اللہ کے خلاف مختلف محاذوں بالخصوص شمالی محاذ سے ملنے والے خطرات سے نمٹنا ہے اور اس محاذ میں اپنی افواج کی بڑی تعداد کو تعینات کرنا ہے۔ دوسری طرف، مغربی کنارہ ایک اہم اور جلتا ہوا محاذ بن چکا ہے، اب مغربی کنارے میں صہیونی افواج کی تعداد غزہ میں ان افواج کی تعداد سے زیادہ ہے۔
ہمیں یہ بھی بتانا چاہیئے کہ اسرائیلی فوج نے اردن کے ساتھ سرحد کی حفاظت کے لیے ایک نیا فوجی ڈویژن بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے، ان تشریحات سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ اگر اسرائیل غزہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو اسے دوسرے محاذوں کو ترک کرنا ہوگا، جس کا مطلب یہ ہے کہ صورتحال مختلف محاذوں بالخصوص شمالی اور مغربی کنارے سے صیہونیوں کے خلاف ہوجائیگی۔ بہرحال ہم یہ نتیجہ بھی نکال سکتے ہیں کہ نیتن یاہو کی طرف سے اختیار کی گئی فوجی دباؤ کی پالیسی صرف ان کے سیاسی اور ذاتی مفادات کو پورا کرتی ہے۔ ایک ایسی حقیقت، جس سے صہیونی حکام اور آبادکار دونوں واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اسرائیل کے جنگی اہداف فوجی دباؤ سے حاصل نہیں ہوں گے۔