0
Saturday 7 Sep 2024 13:20

طالبان سفیر کو قبول کرنے کے متحدہ عرب امارات کے ظاہری اور پوشیدہ مقاصد

طالبان سفیر کو قبول کرنے کے متحدہ عرب امارات کے ظاہری اور پوشیدہ مقاصد
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

متحدہ عرب امارات میں طالبان کا نمائندہ قبول کرنا عالمی برادری میں اس گروہ کی حکمرانی کو تسلیم کرنے کا ایسا اقدام  ہے، جسے ماہرین کے مطابق امریکہ کی پس پردہ حمایت حاصل ہے۔ اگست 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے ساتھ ہی یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ عالمی برادری اس نئی حکومت سے کیسے نمٹے۔ اقلیتوں کے حقوق اور انسانی حقوق کے مسائل کے حوالے سے کابل سے عالمی برادری کے مطالبات اور حکمرانی کے معاملے میں طالبان کی طرف سے اپنے نظریاتی اصولوں کو برقرار رکھنے کے اصرار کے درمیان جدوجہد میں امارت اسلامیہ کی بین الاقوامی قبولیت کا مسئلہ بدستور موجود ہے، جو افغان حکومت کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ تاہم اس دوران، طالبان کے لیے تمام راستے بند نہیں ہوئے ہیں اور امارت اسلامیہ نے سفارت کاری اور یہاں تک کہ کچھ پس پردہ حربوں کے ذریعے بین الاقوامی تنہائی کو کم کرنے کے لیے کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

اس سلسلے میں، طالبان نے بدھ (31 اگست) کو ایک بیان شائع کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ "مولوی بدرالدین حقانی" کو متحدہ عرب امارات میں افغانستان کا سفیر مقرر کیا گیا ہے اور انہوں نے متحدہ عرب امارات کے معاون نائب وزیر خارجہ کو اپنی اسناد پیش کی ہیں۔ جنوری میں چین میں سفیر کی تقرری کے بعد طالبان کے لیے یہ سب سے اہم سفارتی کامیابی ہے، جس سے متحدہ عرب امارات مشرق وسطیٰ کا پہلا ملک ہے، جس نے کابل کے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات قائم کیے ہیں۔ طالبان کے نمائندے کی اسناد کی وصولی کی تصدیق کرتے ہوئے، ابوظہبی نے "امارت اسلامی افغانستان" کی اصطلاح کے بجائے "اسلامی جمہوریہ افغانستان" کی اصطلاح استعمال کی، جو موجودہ کابل حکومت استعمال کرتی ہے۔

اگرچہ چین اور متحدہ عرب امارات نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے، لیکن سفارت کاروں اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سرکاری سفیر کو قبول کرنا دو طرفہ تعلقات کی ترقی میں ایک اہم قدم ہے۔ طالبان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات طویل عرصے سے تنازعات کا شکار رہے ہیں، اگرچہ یہ ملک ان تین ممالک میں سے ایک تھا، جنہوں نے 1990 کی دہائی کے اواخر میں طالبان کی پہلی حکومت کو تسلیم کیا تھا، لیکن 11 ستمبر 2001 کے واقعات اور کابل کے سقوط کے بعد تعلقات منقطع ہوگئے تھے، تاہم طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد یہ مساوات دوبارہ تعلقات کی بحالی کی طرف مڑ گئی ہے اور ابوظہبی کے حکمرانوں نے اپنا نقطہ نظر تبدیل کر لیا ہے۔

طالبان نے اس سے قبل سفارتی مشن اور فرائض کی انجام دہی کے لیے پاکستان سمیت کئی ممالک میں نمائندے بھیجے تھے، لیکن ان ممالک نے تاحال طالبان کی درخواست پر اتفاق نہیں کیا۔ افغان حکومت کے سابق سفارت کار زیادہ تر ممالک میں کام کر رہے ہیں، جبکہ طالبان نے ان کی سرگرمیوں کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دیا ہے، اس گروپ کی طرف سے تمام ممالک میں ملکی سفارت خانوں پر قبضہ کرنے کی کوشش ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیوں والی طالبان حکومت کو تسلیم کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی قانون کے تحت خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بینکنگ سیکٹر پر پابندیاں اور حکومتی شناخت کی کمی افغانستان کی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

دوسری طرف بین الاقوامی برادری نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کو افغانستان کے تمام نسلی گروہوں اور سیاسی دھڑوں پر مشتمل ایک جامع حکومت کی تشکیل سے مشروط کیا ہے، جو کہ طالبان نے اب تک نہیں کیا ہے۔ ایسے میں طالبان حکومت نے دوسرے راستے آزمانے کی کوشش کی ہے اور اس کی بنیاد پر اس نے علاقائی اور ماورائے علاقائی طاقتوں کے ساتھ دوطرفہ تعلقات قائم کرنے کا پروگرام ترتیب دیا ہے۔

متحدہ عرب امارات اور طالبان کی ایک دوسرے کی ضرورت
بلاشبہ متحدہ عرب امارات اور طالبان نے سفارتی تعلقات کے قیام سے اپنے لیے اہداف اور منصوبے طے کیے ہیں، جنہیں وہ باہمی تعاون کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان نے 2022 میں کابل ہوائی اڈے پر آپریشن کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے، جو ان کے اقتصادی تعلقات کا پیش خیمہ تھا۔ اس کے علاوہ، سراج الدین حقانی، طالبان حکومت کے وزیر داخلہ، جنہیں امریکہ نے خاص طور پر دہشت گرد قرار دیا ہے، انہوں نے جون میں ابوظہبی میں متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ محمد بن زید النہیان سے ملاقات کی ہے۔ طالبان کے سفیر کو قبول کرنا ایک وسیع حکمت عملی کا حصہ ہوسکتا ہے، جس کا مقصد خطے میں متحدہ عرب امارات کے مفادات کو محفوظ بنانا ہے۔گزشتہ دہائی میں متحدہ عرب امارات نے علاقائی مساوات میں اپنا وزن بڑھا کر مغربی ایشیا میں سیاسی پیش رفت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

افغانستان کے امور کے ماہر اسماعیل باقری نے الوقت نیوز کے ساتھ گفتگو میں طالبان حکومت کے ساتھ تعاون کے UAE کے اہداف کے بارے میں کہا ہے کہ  "UAE اور طالبان کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور یہ سیاسی تعاملات دو طرفہ تعلقات کا حصہ ہیں، اس کے علاوہ یہ ایجنڈا  ریاستہائے متحدہ کی طرف سے متحدہ عرب امارات کو دیا گیا ہے۔ طالبان کی حکومت عالمی برادری کی طرف سے پہچانے جانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ خطے کے ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات کے ساتھ رابطے کے ذریعے وہ اس سمت میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ باقری نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ افغانستان کے اقتصادی شعبے میں متحدہ عرب امارات کی شرکت کو راغب کرنا طالبان کی ضرورت ہے۔

متحدہ عرب امارات افغانستان کے ہوائی اڈوں اور فضائی شعبے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے اور ابوظہبی کے پاس ان شعبوں کا کنٹرول اور انتظام ہے۔ متحدہ عرب امارات کا یہ اقدام وسیع مالی وسائل کی وجہ سے اقتصادی اور سیاسی محرکات کا حامل ہوسکتا ہے، کیونکہ افغانستان میں موجودگی ابوظہبی کے لیے ایسے ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتی ہے، افغانستان کے پاس قدرتی وسائل بہت زیادہ ہیں اور متحدہ عرب امارات اس طرح کے حالات میں وسیع سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور افغانستان میں سرمایہ کاری کے ساتھ وہ اس ملک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتا ہے۔

دوسری جانب یو اے ای نے ننگرہار کے شمال میں "خوست" کے علاقے میں ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی بنایا ہے اور طالبان کے وزیر داخلہ نے یو اے ای کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور دیگر طاقتیں طالبان کے تعاون سے افغانستان میں داعش دہشت گرد گروہ سے نمٹنا چاہتی ہیں۔ باقری نے اس کیس کے سیاسی پہلوؤں کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ "متحدہ عرب امارات میں طالبان کے نمائندے کو قبول کرنا نہ صرف اس گروہ کی حکومت کی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا ہے، بلکہ عرب ممالک کے لئے طالبان کو تسلیم کرنے کے لیے ضروری پلیٹ فارم بھی مہیا کرنا ہے، تاکہ عالمی برادری بالآخر اس حکومت کو قبول کر لے۔

باقری نے مزید عرب ممالک کے درمیان مقابلے کے تناظر میں کہا ہے کہ  "متحدہ عرب امارات نہیں چاہتا کہ قطر افغانستان کے اندرونی معاملات میں غیر متنازعہ طاقت بنے، وہ افغانستان میں دوحہ کو نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ افغانستان میں متحدہ عرب امارات کی پالیسی کی حمایت کرتے ہیں، تاکہ بظاہر معاشی امداد کی صورت میں طالبان رہنماؤں تک رسائی اور اثر و رسوخ حاصل کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات افغانستان پر اثرانداز ہو کر دینی مدارس قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ وہ اپنی پالیسیوں سے افغانوں کے نظریات پر اثر انداز ہوسکیں۔
خبر کا کوڈ : 1158554
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش