1
Saturday 31 Aug 2024 17:58

سیاسی راہ حل یا فوجی حیلہ

سیاسی راہ حل یا فوجی حیلہ
تحریر: سمیرا کریم شاہی
 
قاہرہ میں جاری جنگ بندی مذاکرات کا خاتمہ اسی قدر مایوس کن تھا جو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکراتی سلسلے کا خاتمہ تھا۔ وہاں سے ملنے والی خبروں میں بدستور بند گلی کی صورتحال میں جنگ بندی معاہدے کے حصول کو ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ممالک خاص طور پر مصر اور قطر سیاسی راہ حل باقی رکھنے کیلئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن جو چیز واضح طور پر دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم امریکہ کی جانب سے حمایت پر مطمئن ہے چاہے وہ خود کو جنگ بندی کا حامی ہی ظاہر کیوں نہ کر رہا ہو لہذا زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنے کیلئے جنگ بندی کے حصول میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ امریکہ نے فلسطین کے بارے میں دوغلے رویے اختیار کر رکھے ہیں۔
 
وائٹ ہاوس ایک طرف خود کو خطے میں تناو کم کرنے کا حامی ظاہر کرتا ہے جبکہ دوسری طرف صیہونی حکمرانوں کو روکنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا جس کے باعث نیتن یاہو اور اس کی انتہاپسند کابینہ کسی پریشانی کے بغیر پوری جرات سے مزید جنگی جرائم اور غیر انسانی اقدامات انجام دیتی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے میں صیہونی حکمرانوں نے خطے میں نئی وسیع جنگ شروع کرنے کی کسی کوشش سے دریغ نہیں کیا ہے۔ گذشتہ دو دنوں میں صیہونی رژیم نے مغربی کنارے کے شمال میں واقع پناہ گزین کیمپوں پر وسیع فوجی جارحیت کا آغاز کر رکھا ہے جن میں طول کرم، جنین اور طوباس شامل ہیں۔ صیہونی وزیر خارجہ یسرائیل کاتس نے ان نئے مجرمانہ اقدامات کا مقصد ان پناہ گزین کیمپوں میں مسلح فلسطینیوں کو کچلنا بیان کیا ہے اور حتی دعوی کیا ہے کہ اردن کے راستے ان گروہوں کو اسلحہ اور فوجی سازوسامان فراہم کیا جاتا ہے۔
 
یسرائیل کاتس نے واضح انداز میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کو "غزہ کی طرح" مغربی کنارے میں بھی تمام ضروری اقدامات انجام دینے چاہئیں۔ اوسلو میں فلسطین اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا اور اس میں مغربی کنارے کے انتظامی امور بھی طے کئے گئے تھے۔ اس کے بعد غزہ میں اسلامی مزاحمت نے زور پکڑا اور وہاں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ تب سے صیہونی رژیم مغربی کنارے میں بارہا جارحانہ اقدامات انجام دیتی آئی ہے لیکن اس نے کوشش کی ہے کہ یہ اقدامات میڈیا میں نہ آئیں کیونکہ وہ مغربی کنارے کو ایک مثالی علاقہ پیش کرنا چاہتی تھی اور یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ فلسطینی اور صیہونی آبادکار پرامن طور پر ایک ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ اس طرح صیہونی رژیم نے اپنی پوری توجہ غزہ پر مرکوز کر رکھی تھی اور اپنی پوری طاقت سے غزہ میں اسلامی مزاحمت کا مقابلہ کرنے میں مصروف تھی۔
 
اگر طوفان الاقصی آپریشن سے پہلے تک غاصب صیہونی رژیم غیر اعلانیہ طور پر مغربی کنارے کے باسیوں کے خلاف ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے تھی تو اب صیہونی وزیر خارجہ کے بیان کے بعد مغربی کنارے پر وسیع پیمانے پر فوجی چڑھائی کر کے اس نے اپنا اصلی چہرہ عیاں کر دیا ہے اور اپنی شیطانی نیت ظاہر کر دی ہے۔ لہذا اب ثابت ہو گیا ہے کہ غاصب صیہونی حکمرانوں کی نظر میں غزہ اور مغربی کنارے میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا اور فلسطین اتھارٹی سے امن مذاکرات اور متعدد معاہدے صرف لفظوں کا کھیل تھا اور ان کا مقصد فلسطینیوں کو دھوکہ دے کر زیادہ سے زیادہ مقبوضہ سرزمینوں پر قبضہ جمانا تھا۔ گذشتہ 11 ماہ کے دوران صیہونی فورسز سے جھڑپوں میں مغربی کنارے میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ صیہونی حکمرانوں کی جانب سے حماس کے بغیر اچھی زندگی کا تصور پیش کرنے کا مقصد فلسطینیوں کو دھوکہ دینا تھا۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی کنارے پر صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت اور ہر حملے میں شہداء کی تعداد میں اضافہ ان چند دنوں تک محدود نہیں رہے گا۔ مغربی کنارے پر حکمفرما فلسطین اتھارٹی بھی گذشتہ 11 ماہ کی طرح عملی طور پر نیوٹرل بلکہ اکثر مواقع پر صیہونی رژیم سے تعاون کرنے میں مصروف ہے۔ مغربی کنارے میں یہ رویہ عام ہو چکا ہے جس کے باعث یہ علاقہ صیہونی جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں کم ترین دفاعی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ مغربی کنارے میں حد سے زیادہ سیاسی راہ حل پر توجہ دینے کا نتیجہ غزہ میں جنگ بندی میں رکاوٹ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم غزہ میں جنگ بندی کیلئے جن زیادہ سے زیادہ مراعات کے درپے ہے وہ اس نے مغربی کنارے میں پہلے سے ہی حاصل کر لی ہیں لیکن یہ علاقہ پھر بھی اس کی جارحانہ کاروائیوں اور مجرمانہ اقدامات سے محفوظ نہیں ہے۔ لہذا صیہونی رژیم کو مراعات دینا غزہ میں جاری مجرمانہ اقدامات بند ہو جانے کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتا۔
 
ثالثی کرنے والے عرب ممالک کی طرح فلسطین اتھارٹی بھی اسرائیل کی جانب سے نیا محاذ کھولنے پر غیر جانبدار نہیں رہ سکتی۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران امریکہ نے مختلف شخصیات اور افراد کے ذریعے ایران کو پیغامات بھیجے ہیں جن میں خطے میں تناو کی شدت مزید بڑھ جانے اور علاقائی جنگ شروع ہو جانے کی وارننگ دی گئی ہے۔ لیکن دوسری طرف اسرائیل امریکہ کی بھرپور حمایت سے شدت آمیز اقدامات کا سلسلہ بڑھاتا جا رہا ہے۔ اسلامی مزاحمت نے جنگ بندی کی خاطر انتقامی کاروائی موخر کی جبکہ حماس نے جنگ بندی کا خیرمقدم بھی کیا لیکن اسرائیل ہے جو امریکہ کی غیر مشروط مدد سے تمام مذاکرات پر پانی پھیرتا آیا ہے۔ لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ اگر حزب اللہ لبنان کے اربعین آپریشن کے بعد ایران بھی انتقامی کاروائی انجام دے دیتا ہے تو اسرائیل کی بدمعاشی کا سلسلہ رک سکتا ہے۔ دوسری صورت میں بے سود سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں گی اور اسرائیل کو مزید مجرمانہ اقدامات انجام دینے کا موقع ملتا رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 1157313
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش