تحریر: نوید چودھری
نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی پر بلوچستان میں خاک و خون کا جو کھیل کھیلا گیا وہ انٹیلی جنس اداروں اور سکیورٹی فورسز کی ناکامی ہے۔ یہ بات سب کے علم میں تھی کہ اکبر بگٹی کی برسی پر بلوچستان میں لازماً احتجاج کیا جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں سب کو نظر آ رہا تھا کہ طاقتور بیرونی ہاتھ کے ایماء پر برسرپیکار دہشت گردوں اور نام نہاد علیحدگی پسند تنظیموں نے تخریب اور حملے پہلے سے کہیں زیادہ بڑھا دیئے ہیں۔ برسی کے موقع پر مسلح گروپ کسی بھی طرح کی کارروائی کر سکتے ہیں لیکن اس حوالے مناسب پیشگی انتظامات کیے ہی نہیں گئے۔
بلوچستان میں احساس محرومی اور مسلح کارروائیوں کا سلسلہ قیام پاکستان کے فوری بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ بیرونی مداخلت تو کبھی رکی ہی نہیں لیکن بہت بڑی خرابی فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں پیدا ہوئی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ حالات کو جان بوجھ کر مزید بگاڑا گیا۔ سوئی میں ملازم ایک لیڈی ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ زیادتی کرنے کے کیس میں ایک کیپٹن کا نام سامنے آیا۔ اکبر بگٹی ایک بہادر شخص تھے۔ انہوں نے اس معاملے پر سخت مؤقف اختیار کیا۔
واضح رہے کہ بڑے قبائلی سردار اکبر بگٹی تمام زندگی ریاست اور ریاستی اداروں کے ساتھ شانہ بشانہ چلتے رہے تھے۔ وہ بلوچستان کے گورنر، وزیراعلیٰ اور پاکستان کے وزیر دفاع بھی رہے۔ حالات نے پلٹا کھایا تو وہ اور جنرل مشرف آمنے سامنے آگئے۔ صوبے کے حالات پہلے ہی خراب تھے۔ اس دوران صلح صفائی کی کوششیں ہوئیں۔ اکبر بگٹی نے لچک دکھائی، ایک موقع پر مذاکرات کیلئے اسلام آباد جانے پر آمادہ ہوگئے لیکن عین وقت پر بتایا گیا کہ انہیں جس جہاز میں جانا تھا وہ خراب ہوگیا۔
جہاں دیدہ اکبر بگٹی فوراً سمجھ گئے اب انہیں زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔ بزرگی اور معذوری کی حالت میں وہ اپنے چند ساتھیوں سمیت پہاڑوں پر چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف مجھے مارنے کا پلان بنا رہے ہیں لیکن میری موت کیسے ہوگی اس کا فیصلہ میں خود کروں گا۔ جنرل مشرف تڑیاں لگا رہے تھے کہ اکبر بگٹی کو وہاں سے ہٹ کریں گے جہاں سے ان کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ 26 اگست 2006ء کو خبر آگئی کہ اکبر بگٹی اور انکے ساتھیوں کو کوہلو کے پہاڑی سلسلے میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔
طریق کار کے حوالے سے متضاد اطلاعات آئیں، کچھ نے میزائل حملے کی بات کی۔ کسی کا کہنا تھا کہ حملہ امریکہ نے کیا، پھر کہا گیا کہ ایک غار کے اندر موجود اکبر بگٹی کو فوجی دستوں نے ٹریس کرکے گھیرے میں لے لیا تھا۔ کچھ افسر اور اہلکار انہیں پکڑ کر ساتھ لے جانے کے لیے اندر گئے تو اکبر بگٹی نے خود بٹن دبا کر پہلے سے نصب دھماکہ خیز مواد کے ذریعے سب کچھ اڑا دیا۔ اکبر بگٹی کو خدشہ تھا کہ اگر وہ زندہ گرفتار کر لیے گئے تو انہیں ان کے قبائلی مخالفین کے حوالے کرکے مروایا جائے گا۔
نماز جنازہ کے لیے اکبر بگٹی کی باقیات کو تابوت میں انکے آبائی علاقے لایا گیا تو اسے تالا لگا ہوا تھا، چند لوگوں کو شرکت کی اجازت دی گئی، سخت سکیورٹی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ تمام عمر وفاق کی سیاست کرنے والے بگٹی کی موت سے بلوچستان میں گڑ بڑ کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا اس نے پوری ریاست کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ بات نوٹ کی جانی چاہیئے کہ اس وقت امریکی دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا تھا کہ ’’اکبر بگٹی ایک قبائلی سردار تھے جنہوں نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے ہتھیار اٹھا لیے تھے‘‘۔
اس سفارتی بیان کا بین السطور مطلب یہ تھا کہ جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے وہ مارا جاتا ہے۔ نوے کی دہائی میں کہا جاتا تھا کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتی ہے۔ وفاق مخالف قوتوں کو خوش فہمی تھی کہ ایسا ہی ہوگا۔ ان میں کچھ کہا کرتے تھے کہ ایک ہمسایہ ملک کی فوج صوبے میں داخل ہوکر پاکستانی فورسز کو باہر نکال کر ہمیں آزادی دلائے گی۔ عالمی طاقتوں کا اصل منصوبہ بلوچستان میں محض گڑبڑ جاری رکھ کر ایٹمی پاکستان کو سنبھلنے کا موقع نہ دینے کا تھا۔
سی پیک شروع ہونے لگا تو سازشیں اور دہشت گردی اور بڑھ گئی۔ تازہ لہر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ نو مئی کو جو کچھ پورے ملک میں ہوچکا اس کے بعد کسی بھی ادارے کی تنصیبات کو محفوظ نہیں سمجھا جا سکتا۔ پھر جس طرح سے فیض نیٹ ورک، عدلیہ اور میڈیا کا بڑا حصہ ڈٹ کر نو مئی کے مجرموں کے ساتھ کھڑا ہوگیا اس سے ہر طرف یہ تاثر گیا کہ اسٹیبلشمنٹ جس کی پہچان ہی آہنی ہاتھ ہیں اپنی گرفت کھو رہی ہے۔
جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری کے بڑے اقدام سے ثابت ہوا کہ حقیقت میں ایسا نہیں لیکن ایک مخصوص تاثر بن جائے تو پھر اسے دور کرنے کے لیے کئی ایسے اقدامات کرنا پڑتے ہیں جو سب کو نظر بھی آئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نو مئی کو جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس، آئی ایس آئی دفاتر اور ائر بیس پر کھڑے جہازوں سمیت لگ بھگ ڈھائی سو عسکری تنصیبات پر حملوں نے حالات کا رخ موڑ دیا ہے کیونکہ ان حملہ آورں کے خلاف ریاست ابتک فیصلہ کن کارروائی کرنے میں ناکام ہے۔
ریاست کی اسی ناکامی کے سبب کے پی کے میں ٹی ٹی پی بلوچستان میں مجید بریگیڈ اور بی ایل اے جیسے دہشت گرد گروپوں کو اور شہ ملی ہے۔ دونوں صوبوں میں مرکز مخالف تنظیموں کے بڑے بڑے اجتماعات اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی پچھلی قیادت نے جو بیج بوئے تھے وہ خاردار جھاڑیوں کے صورت پر ہر جگہ پھیل چکے ہیں۔ یقیناً سی پیک کو بچانے کے لیے بلوچستان میں ایک نیا آپریشن زیادہ شدت سے کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔
مخالف قوتوں کا پلان آج بھی یہی ہے کہ بلوچستان کو لہو لہو رکھ کر پاکستان کو زخمی رکھا جا سکے۔ جو غیر ملکی ایجنٹ اور احمق یہ سوچ رہے ہیں کہ انہیں کوئی ’’بنگلہ دیش‘‘ ملے گا وہ جان لیں عالمی اسٹیبلشمنٹ اپنے مقاصد کے لیے ہی سہی ایسا نہیں ہونے دے گی۔ بے گناہ شہریوں اور سکیورٹی فورسز پر گولیاں چلانے والوں کا انجام وہی ہو گا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔