تحریر: سید تنویر حیدر
فلسطین کی جنگ آزادی میں اسلامی جمہوری ایران کا جو کردار ہے وہ سب کے سامنے عیاں ہے۔ یہ الگ بات کہ کسی کی آنکھوں پر بغض کی پٹی بندھی ہو اور اسے ایران کا یہ کردار نظر نہ آتا ہو۔ ہم یہاں ایک اور جنگ کا اجمالی ذکر کرنا چاہیں گے جس میں ایران نے مظلوم مسلمانوں کی بلاتفریق مسلک مدد کی لیکن اس میدان میں بھی ایران کے اہم کردار کو نظر انداز کیا گیا۔ یہ جنگ بوسنیائی مسلمانوں اور سربوں کے مابین لڑی گئی۔ اس جنگ میں بوسنیا کے مسلمانوں پر سربوں نے جو مظالم ڈھائے وہ بھی اپنی تاریخ رکھتے ہیں۔
معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی صاحب اس جنگ کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں فرما رہے تھے کہ اس جنگ میں فرشتوں نے بوسنیا کے نہتے مسلمانوں کی مدد کی۔ مولانا صاحب کو اپنی چشم باطن کے طفیل فرشتوں کی غیبی مدد تو نظر آ گئی لیکن چشم ظاہر کے سامنے جو اسلامی جمہوریہ ایران نے عملی مدد کی اسے نہ دیکھ پائے۔ ایران نے اس جنگ میں بوسنیا کو اسلحہ فراہم کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اس خطے میں سربوں اور کروٹس کے مابین بھی جنگ ہو رہی تھی۔ ایران بوسنیا تک اپنا اسلحہ پہنچانا چاہتا تھا لیکن اس کی مشکل یہ تھی کہ بوسنیا کے راستے میں کروٹس کا علاقہ آتا تھا۔
کروٹس کی مرضی کے بغیر ایران کے لیے بوسنیائی مسلمانوں تک اپنےاسلحے کی ترسیل ناممکن تھی۔ کروٹس نے ایران کی اس خواہش کو اپنے لیے غنیمت سمجھا اور ایران کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ اگر وہ انہیں بھی اسلحہ فراہم کرے تو وہ اسے اجازت دے دیں گے کہ وہ ہمارے راستے سے بوسنیا تک اپنا سامان حرب پہنچائے۔ چنانچہ ایران نے بوسنیا تک اپنا اسلحہ پہنچانے کے لیے کروٹس کو بھی اسلحہ فراہم کیا اور یوں بوسنیا نے اس جنگ میں کامیابی حاصل کی۔ اسلامی ایران کی یہ مدد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی بلکہ امریکہ نے بھی اس کا اعتراف کیا تھا۔ اقبال نے سچ کہا تھا کہ:
طہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہء ارض کی تقدیر بدل جائے
اقبال کے شعر میں کچھ ترمیم کی جسارت کرتے ہوئے اور اقبال کی ہی اس فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے میں یوں کہنا چاہوں گا کہ:
طہران ہو گر عالم اسلام کا مرکز
شاید کرہء ارض کی تقدیر بدل جائے