Saturday 17 Aug 2024 19:51
تحریر: سید نثار علی ترمذی
پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل آل انڈیا شیعہ کانفرنس تھی جسے آل پاکستان شیعہ کانفرنس کا نام دے کر اپنا لیا تھا۔ بعض اختلاف کی بنا پر 1948ء میں ادارہ تحفظ حقوق شیعہ کی بنیاد رکھی گئی جس کے پہلے صدر علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم تھے، بعد ازاں حافظ کفایت حسین مرحوم صدر ہوگئے۔ 3 جون 1963ء سانحہ ٹھیڑھی سندھ میں پیش آیا اور لاہور سمیت دیگر مقامات پر بھی جلوس ہائے عزا پر پتھراؤ اور حملے ہوئے۔ یہ دونوں تنظیمیں صرف بیانات کے علاؤہ کچھ نہ کر سکیں۔ مایوسی اور اضطراب کی اس فضاء میں علامہ سید محمد دہلوی مرحوم نے کراچی میں شیعہ علماء کا اجلاس بلایا۔ یہ اس اجلاس کی روداد ہے۔ ساٹھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ایک نظر ماضی پر ڈالنے کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے۔
علامہ ابن حسن جارچوی مرحوم کہتے ہیں کہ انہیں بھی اجلاس سے قبل مشاورت کے لیے بلایا گیا۔ انہوں نے چند علماء کے نام پیش کیے تو قبلہ دہلوی مرحوم نے کہا کہ بھائی! میں اتنے لوگوں کو دعوت دے رہا ہوں جن کو اپنی گرہ سے کھانا کھلا سکوں۔ قارئین ایک نظر مطالبات اور علماء کے اسماء پر بھی ڈالیں، تو واضح ہوگا کہ مطالبات میں کس قدر جامعیت ہے اور علماء میں کتنا تنوع ہے مگر مختلف خیال ہونے کے باوجود ایک مقصد کے لیے جمع ہیں۔ کیا یہ صورت حال آج میسر آسکتی ہے؟ سوچیے گا ضرور۔ اکثر علماء کسی نہ کسی ادارے کی نمائندگی کر رہے تھے مگر اس کے باوجود مل بیٹھے۔ علامہ سید محمد دہلوی مرحوم نے مجلس عمل شیعہ علماء پاکستان کے نام سے تنظیم بنائی، اس کے زیر اثر شیعہ مطالبات کمیٹیوں کا ملک بھر میں جال پھیلا دیا گیا۔ آپ نے پیرانہ سالی کے باوجود ملک بھر کے دورے کئے۔ 19 اگست 1971ء آپ کا یوم رحلت ہے۔
اجتماع شیعہ علماء پاکستان
( اجمالی روداد)
5٫6٫7 جنوری 1964ء امام بارگاہ شاہ کربلا رضویہ کالونی، کراچی میں شیعہ علماء پاکستان کے تاریخی اجتماع منعقد ہوئے جن میں پاکستان بھر کے دو سو سے زائد علماء عظام شریک ہوئے۔ راقم الحروف، سرکار علامہ مفتی جعفر حسین صاحب، سرکار علامہ مرزا احمد علی صاحب قبلہ، مولانا شیخ جواد حسین صاحب قبلہ، شیخ الجامعہ مولانا اختر عباس، مولانا نسیم عباس اور سردار کریم بخش حیدری کے معیت میں 4 جنوری کو صبح کو خیبر میل کراچی پہنچا۔ اسٹیشن پر مجلس استقبالیہ کے معزز اراکین رضاکار استقبال کے لیے موجود تھے۔ سرکار خطیب اعظم مولانا سید محمد دہلوی کے ہاں قیام کا بندوبست تھا۔ وہاں پہنچے تو پہلے سے موجود علماء عظام کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ شام تک پاکستان کے کونے کونے سے علماء عظام کراچی پہنچ گئے۔ اجلاس کی کامیابی کا تو پہلے سے امکان تھا اب یقین کی منزل سامنے آ رہی تھی۔ پہلی نشست 5 جنوری کو تین بجے بعد از دوپہر منعقد ہوئی۔ علمائے عظام کا اتنا بڑا اجتماع پاکستان میں اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ دل مسرت سے لبریز تھے۔ دعائیں مانگی جا رہی تھیں کہ یہ اجتماع اپنے مقصد کے لحاظ سے کامیاب ہو۔ مولانا ملک مہدی حسن صاحب نے سورہ فتح کی تلاوت کی تو کارروائی کا آغاز ہوا۔ مولانا سید ابن حسن صاحب نجفی نے مختصر مگر جامع الفاظ نے اجتماع کی غرض و غایت بیان کی۔
بعدازاں سرکار خطیب اعظم مدظلہ نے گلوگیر آواز میں قران مجید ہاتھ لے کر ارشاد فرمایا: "آج میں جس درد کو لے کر کھڑا ہوا ہوں اور جو خیالات میرے سینہ میں امڈ رہے ہیں ان کے لیے کتاب خدا کو گواہ قرار دیتا ہوں، آج کل ہماری قوم کے سامنے متعدد مسائل ہیں، ان کو حل کرنا ہماری ہی ذمہ داری ہے، غلط اور بالکل غلط کہا جاتا ہے کہ ہم میں اتحاد نہیں ہے، بغض و حسد موجود ہے، میری نحیف و کمزور آواز پر آپ حضرات نے جس خلوص کا ثبوت دے کر سرد ترین موسم میں زحمت سفر برداشت کرتے ہوئے اس اجتماع میں شرکت فرمائی، وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہم دینی معاملات میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ومضبوط ہیں، آپ کی تشریف آوری کے لیے میں ممنون ہوں، احسان مند ہوں۔ الفاظ نہیں ملتے کہ شکریہ ادا سکوں۔ اس اجتماع سے فائدہ اٹھائیے، پرانی باتوں کو دہرانے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا، مستقبل کو سنوارنے کی تدابیر سوچیے، قوم کو آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے، ان کے مسائل حل کرنا ہماری ہی ذمہ داری ہے اگر ہم نے اپنے مسائل کو سلجھا لیا تو حکومت بھی بے فکر ہو جائے گی، ہم کسی سے ٹکر لینے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں، بیماری کی صورت حکیم سے رجوع کیا جاتا ہے، ہم یہ حق رکھتے ہیں اپنی تکالیف اپنی ہر دل عزیز حکومت کے نوٹس میں لائیں، صدر ایوب سے یہی توقع ہے کہ آپ کی آواز کو سنیں گے، ٹھوکر نہیں ماریں گے، بے اعتنائی نہیں کریں گے، اگر ہم متحد و متفق ہوکر آواز بلند کریں تو وہ صدا بالصحرا ثابت نہیں ہوگی۔"
سرکار خطیب اعظم مدظلہ کے فاضلانہ بیان کے بعد حضرت علامہ سید ابن حسن نجفی نے نہایت جامع خطبہ استقبالیہ پڑھا۔ خطیب آل محمد مولانا سید اظہر حسن صاحب زیدی، مولانا شبیہ الحسنین صاحب قبلہ، خواجہ محمد لطیف صاحب انصاری، مبلغ اعظم مولانا محمد اسماعیل صاحب اور مولانا مرزا یوسف حسین صاحب نے مذکورہ بیانات کی تائید میں نہایت مؤثر تقاریر کی۔ تین روز میں چار نشستیں منعقد ہوئیں اور درج ذیل تجاویر متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔
1- تحریک۔ مولانا شبیہ الحسنین صاحب۔۔ تائید۔ مولانا مرزا احمد علی صاحب "علماء شیعہ پاکستان کا یہ اجتماع استحکام و ترقی مملک پاکستان کے لیے مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں باہمی تعاون، یکجہتی کو انتہائی اہم قرار دیتا ہے۔ ان تخریب پسند عناصر کو جو اس راہ میں افتراق و انتشار کے درپے رہتے ہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ساتھ ہی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ ملک کی بقا اور سالمیت کے لیے آئندہ ایسے مفسد پردازوں کے استیصال کا مستقبل اور تسلی بخش انتظام کرے۔"
2- تحریک۔ ڈاکٹر سید اعجاز حسین صاحب جعفری۔۔ تائید۔ مولانا مرزا یوسف حسین صاحب "چونکہ فقہ شیعہ اثناء عشری دیگر اسلامی فرقوں سے جداگانہ حیثیت رکھتی ہے اس لیے یہ اجتماع علماء شیعہ پاکستان سے پرزور مطالبہ کرتا ہے وہ شیعہ اوقاف جو سردست حکومت کی تحویل میں ہیں یا آئندہ زیر انتظام و انصرام حکومت آئیں ایسے جملہ اوقاف مجلس عمل علماء شیعہ پاکستان کے مجوزہ بورڈ کے حوالے کیے جائیں تاکہ ان کا صرف و خرچ منشاء واقف کے مطابق کیا جائے۔"
3- تحریک۔ مولانا سید نجم الحسن صاحب کراروی۔۔ تائید۔ مولانا مفتی جعفر حسین صاحب "چونکہ شیعہ اور غیر شیعہ اثناء عشری دینیات میں کچھ اہم بنیادی اختلافات ہیں اور موجودہ حالات میں شیعہ طلباء غیر شیعہ دینیات پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں جس کی بنا پر ایک طرف اپنی مذہبی تعلیم سے بیگانہ ہو جاتے ہیں دوسری طرف ان کی گھر کی تعلیم اور اسکول کی تعلیم میں تصادم ہوتا ہے اور یہ ٹکراؤ ان کے لیے بے حد مضر اور انتشار ذہنی کا باعث ہوتا ہے۔ اس لیے علماء شیعہ اثناء عشری کا یہ جلسہ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ سرکاری یا غیر سرکاری تعلیمی ادارے جن کو حکومت امداد دیتی ہے ان میں شیعہ دینیات کا جداگانہ انتظام کرکے ملت سے شیعہ اثناء عشری کے درینہ مطالبے کو پورا کرے۔"
4- تحریک۔ مولانا سید مرتضی حسین لکھنوی۔۔ تائید۔ مولانا حشمت علی "چونکہ موجودہ نصاب تعلیم میں جو سرکاری وغیرہ سرکاری اداروں میں رائج ہے وہ براہ راست شیعہ عقائد، تاریخ و ادب و ثقافت سے متصادم ہوتا ہے جس سے شیعان پاکستان میں شدید ہیجان پیدا ہو چکا ہے۔ علماء شیعہ کا یہ اجلاس برادرانہ فضا کو خوشگوار رکھنے کی خاطر حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ تمام مضامین تعلیم کے سلیبس میں شیعہ عقائد و تاریخ و ثقافت کے خلاف جو مواد موجود ہے اس کو خارج کیا جائے۔"
5- تحریک۔ مولانا محمد حسین صاحب۔۔ تائید۔ مولانا گلاب علی شاہ صاحب۔۔تائید مزید۔ مولانا محمد لطیف صاحب انصاری "چونکہ شیعہ اثناء عشری اور دیگر فرق اسلامی کی تفسیر و حدیث تقریبا نظر انداز کردیا گیا ہے۔ لہٰذا علماء شیعہ کا یہ مقدس اجتماع اپنی عزیز حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ اس سلسلے میں ہماری تفسیر، حدیث، فقہ کے تبادل کتب نیز امتحان کا انتظام شیعہ ممتحین کے ذریعے کرکے مساوات اسلامی کا ثبوت دے۔"
6- تحریک۔ شیخ غلام الحسنین صاحب پنڈت، مولانا شبیہ الحسین صاحب "علماء شیعان پاکستان کے نمائندہ اجتماع مقبوضہ کشمیر میں موئے مبارک کی چوری اور کشت واڑ کی محترم درگاہ کی بے حرمتی جیسے اندوہناک واقعات پر دلی غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے اور حکومت پاکستان کو یقین دلاتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو بھارت کی چیرا دستیوں سے آزاد کرانے کے لیے جو بھی موثر اقدام کرے گی ملت شیعہ اس کو کامیاب بنانے کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔"
7- تحریک۔ مولانا حافظ کفایت حسین صاحب۔۔ تائید۔۔ مولانا مفتی جعفر حسین صاحب "شیعہ اثناء عشریہ کا یہ اجتماع عزاداری امام حسین علیہ السلام کو شیعوں کے لیے شہ رگ حیات، مذہبی شعار نیز اقدار حیات کا مرکز سمجھتا ہے اور حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ دستور پاکستان اور بنیادی حقوق کی ذی ہوش ضمانتوں کے تحت ہر قسم کی آزادی مہیا کرے نیز اس راہ میں ہر قسم کی مزاحمتوں کو دور کرے تاکہ اعزادری حضرت سید الشہداء، مراسم محرم، و جلوس ہائے عزاء اور مجالس و محافل دینی کے اجتماعات کو محفوظ طریقے سے برقرار رکھ سکیں۔"
8- تحریک۔ مولانا شبیہ الحسنین۔۔ تائید۔ مولانا ملک مہدی حسن علوی "یہ اجتماع دینی، تجاویز کو عملی شکل دینے کے لیے ایک مجلس عمل کے قیام کا اعلان کرتا ہے جس کے سربراہ خطیب اعظم مولانا سید محمد صاحب قبلہ دہلوی ہوں گے اور خود اپنی صوابدی سے اپنے معاون نامزد فرمانے کے مجاز ہوں گے۔"
تجاویز پیش ہونے سے قبل اجتماع نے ان معززین ،اکابرین علماء کرام، مومنین کے لیے جو قوم کو داغ مفارقت دے گئے تھے سورہ فاتحہ پڑھی اور شہدائے ٹھیڑھی کے ارواح کو ایصال ثواب کے لیے کلام پاک کی تلاوت کی گئی۔ یہ بات بہت بڑی، حوصلہ افزا اور خوش کن تھی کہ اس اجتماع میں دو سے زائد علماء کرام شریک ہوئے، وہ اس امر میں پوری طرح متحد و متفق رہے۔ انہوں نے سرکار خطیب اعظم مدظلہ کو مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ اس سلسلے میں جناب مولانا عارف حسین صاحب (سندھ)، مولانا محمد اسماعیل (ادارہ تبلیغ شیعہ پاکستان کی طرف سے)، ڈاکٹر اعجاز حسین جعفری (مشرقی پاکستان)، مولانا شیخ علی صاحب (کوئٹہ)، قاری محمد عباس صاحب (سرحد)، مولانا سید نجم الحسن کراروی (پشاور)، مولانا محمد حسین صاحب (مدارس دینیہ کی طرف سے)، مولانا شبیہ الحسنین صاحب، مولانا ابن حسن صاحب نجفی (جمعیت علمائے پاکستان کی طرف سے)، مولانا مہدی حسن صاحب علوی، مولانا محمد بشیر صاحب انصاری (مجلس شیعہ علماء پاکستان کی طرف سے)، مولانا حشمت علی صاحب (سندھ کی طرف سے)، مولانا مشتاق احمد صاحب (پاکستان شیعہ کانفرنس کی طرف سے)، مولانا ضمیر الحسن صاحب نجفی، مولانا سید احمد علی صاحب (بلتستان کی طرف سے)، مولانا سید اظہر حسن صاحب زیدی (ادارہ تحفظ حقوق شیعہ کی طرف سے)، مولانا سید یوسف حسین صاحب (اسلامیہ مشن پاکستان کی طرف سے)، خواجہ محمد لطیف انصاری (امامیہ مشن کی طرف سے)، مولانا مرتضیٰ حسین صاحب فاضل لکھنوی (حسینی مشن پاکستان اور ادارہ معارف اسلام کی طرف سے) ہر ممکن تعاون کی پیش کش فرمائی۔ ہمارے خیال میں یہ اجلاس اپنے مقاصد کے لحاظ سے انتہائی کامیاب رہے۔ سرکار خطیب اعظم مدظلہ جلد ہی مجلس عمل کے معزز اراکین کو نامزد کرکے اپنی مساعی جمیلہ کو عمل میں لائیں گے اور ان شاءاللہ تعالی کامیابی ان کے قدم چومے گی۔
ہمیں نہایت افسوس ہے کہ پیام عمل کے محدود صفحات کی وجہ سے مکمل روئداد شائع نہیں کر سکے ہیں جس کے لیے ہم بہرحال معذرت خواہ ہیں۔
( ماہنامہ پیام عمل، لاہور فروری 1964ء)
پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل آل انڈیا شیعہ کانفرنس تھی جسے آل پاکستان شیعہ کانفرنس کا نام دے کر اپنا لیا تھا۔ بعض اختلاف کی بنا پر 1948ء میں ادارہ تحفظ حقوق شیعہ کی بنیاد رکھی گئی جس کے پہلے صدر علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم تھے، بعد ازاں حافظ کفایت حسین مرحوم صدر ہوگئے۔ 3 جون 1963ء سانحہ ٹھیڑھی سندھ میں پیش آیا اور لاہور سمیت دیگر مقامات پر بھی جلوس ہائے عزا پر پتھراؤ اور حملے ہوئے۔ یہ دونوں تنظیمیں صرف بیانات کے علاؤہ کچھ نہ کر سکیں۔ مایوسی اور اضطراب کی اس فضاء میں علامہ سید محمد دہلوی مرحوم نے کراچی میں شیعہ علماء کا اجلاس بلایا۔ یہ اس اجلاس کی روداد ہے۔ ساٹھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ایک نظر ماضی پر ڈالنے کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے۔
علامہ ابن حسن جارچوی مرحوم کہتے ہیں کہ انہیں بھی اجلاس سے قبل مشاورت کے لیے بلایا گیا۔ انہوں نے چند علماء کے نام پیش کیے تو قبلہ دہلوی مرحوم نے کہا کہ بھائی! میں اتنے لوگوں کو دعوت دے رہا ہوں جن کو اپنی گرہ سے کھانا کھلا سکوں۔ قارئین ایک نظر مطالبات اور علماء کے اسماء پر بھی ڈالیں، تو واضح ہوگا کہ مطالبات میں کس قدر جامعیت ہے اور علماء میں کتنا تنوع ہے مگر مختلف خیال ہونے کے باوجود ایک مقصد کے لیے جمع ہیں۔ کیا یہ صورت حال آج میسر آسکتی ہے؟ سوچیے گا ضرور۔ اکثر علماء کسی نہ کسی ادارے کی نمائندگی کر رہے تھے مگر اس کے باوجود مل بیٹھے۔ علامہ سید محمد دہلوی مرحوم نے مجلس عمل شیعہ علماء پاکستان کے نام سے تنظیم بنائی، اس کے زیر اثر شیعہ مطالبات کمیٹیوں کا ملک بھر میں جال پھیلا دیا گیا۔ آپ نے پیرانہ سالی کے باوجود ملک بھر کے دورے کئے۔ 19 اگست 1971ء آپ کا یوم رحلت ہے۔
اجتماع شیعہ علماء پاکستان
( اجمالی روداد)
5٫6٫7 جنوری 1964ء امام بارگاہ شاہ کربلا رضویہ کالونی، کراچی میں شیعہ علماء پاکستان کے تاریخی اجتماع منعقد ہوئے جن میں پاکستان بھر کے دو سو سے زائد علماء عظام شریک ہوئے۔ راقم الحروف، سرکار علامہ مفتی جعفر حسین صاحب، سرکار علامہ مرزا احمد علی صاحب قبلہ، مولانا شیخ جواد حسین صاحب قبلہ، شیخ الجامعہ مولانا اختر عباس، مولانا نسیم عباس اور سردار کریم بخش حیدری کے معیت میں 4 جنوری کو صبح کو خیبر میل کراچی پہنچا۔ اسٹیشن پر مجلس استقبالیہ کے معزز اراکین رضاکار استقبال کے لیے موجود تھے۔ سرکار خطیب اعظم مولانا سید محمد دہلوی کے ہاں قیام کا بندوبست تھا۔ وہاں پہنچے تو پہلے سے موجود علماء عظام کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ شام تک پاکستان کے کونے کونے سے علماء عظام کراچی پہنچ گئے۔ اجلاس کی کامیابی کا تو پہلے سے امکان تھا اب یقین کی منزل سامنے آ رہی تھی۔ پہلی نشست 5 جنوری کو تین بجے بعد از دوپہر منعقد ہوئی۔ علمائے عظام کا اتنا بڑا اجتماع پاکستان میں اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ دل مسرت سے لبریز تھے۔ دعائیں مانگی جا رہی تھیں کہ یہ اجتماع اپنے مقصد کے لحاظ سے کامیاب ہو۔ مولانا ملک مہدی حسن صاحب نے سورہ فتح کی تلاوت کی تو کارروائی کا آغاز ہوا۔ مولانا سید ابن حسن صاحب نجفی نے مختصر مگر جامع الفاظ نے اجتماع کی غرض و غایت بیان کی۔
بعدازاں سرکار خطیب اعظم مدظلہ نے گلوگیر آواز میں قران مجید ہاتھ لے کر ارشاد فرمایا: "آج میں جس درد کو لے کر کھڑا ہوا ہوں اور جو خیالات میرے سینہ میں امڈ رہے ہیں ان کے لیے کتاب خدا کو گواہ قرار دیتا ہوں، آج کل ہماری قوم کے سامنے متعدد مسائل ہیں، ان کو حل کرنا ہماری ہی ذمہ داری ہے، غلط اور بالکل غلط کہا جاتا ہے کہ ہم میں اتحاد نہیں ہے، بغض و حسد موجود ہے، میری نحیف و کمزور آواز پر آپ حضرات نے جس خلوص کا ثبوت دے کر سرد ترین موسم میں زحمت سفر برداشت کرتے ہوئے اس اجتماع میں شرکت فرمائی، وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہم دینی معاملات میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ومضبوط ہیں، آپ کی تشریف آوری کے لیے میں ممنون ہوں، احسان مند ہوں۔ الفاظ نہیں ملتے کہ شکریہ ادا سکوں۔ اس اجتماع سے فائدہ اٹھائیے، پرانی باتوں کو دہرانے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا، مستقبل کو سنوارنے کی تدابیر سوچیے، قوم کو آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے، ان کے مسائل حل کرنا ہماری ہی ذمہ داری ہے اگر ہم نے اپنے مسائل کو سلجھا لیا تو حکومت بھی بے فکر ہو جائے گی، ہم کسی سے ٹکر لینے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں، بیماری کی صورت حکیم سے رجوع کیا جاتا ہے، ہم یہ حق رکھتے ہیں اپنی تکالیف اپنی ہر دل عزیز حکومت کے نوٹس میں لائیں، صدر ایوب سے یہی توقع ہے کہ آپ کی آواز کو سنیں گے، ٹھوکر نہیں ماریں گے، بے اعتنائی نہیں کریں گے، اگر ہم متحد و متفق ہوکر آواز بلند کریں تو وہ صدا بالصحرا ثابت نہیں ہوگی۔"
سرکار خطیب اعظم مدظلہ کے فاضلانہ بیان کے بعد حضرت علامہ سید ابن حسن نجفی نے نہایت جامع خطبہ استقبالیہ پڑھا۔ خطیب آل محمد مولانا سید اظہر حسن صاحب زیدی، مولانا شبیہ الحسنین صاحب قبلہ، خواجہ محمد لطیف صاحب انصاری، مبلغ اعظم مولانا محمد اسماعیل صاحب اور مولانا مرزا یوسف حسین صاحب نے مذکورہ بیانات کی تائید میں نہایت مؤثر تقاریر کی۔ تین روز میں چار نشستیں منعقد ہوئیں اور درج ذیل تجاویر متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔
1- تحریک۔ مولانا شبیہ الحسنین صاحب۔۔ تائید۔ مولانا مرزا احمد علی صاحب "علماء شیعہ پاکستان کا یہ اجتماع استحکام و ترقی مملک پاکستان کے لیے مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں باہمی تعاون، یکجہتی کو انتہائی اہم قرار دیتا ہے۔ ان تخریب پسند عناصر کو جو اس راہ میں افتراق و انتشار کے درپے رہتے ہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ساتھ ہی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ ملک کی بقا اور سالمیت کے لیے آئندہ ایسے مفسد پردازوں کے استیصال کا مستقبل اور تسلی بخش انتظام کرے۔"
2- تحریک۔ ڈاکٹر سید اعجاز حسین صاحب جعفری۔۔ تائید۔ مولانا مرزا یوسف حسین صاحب "چونکہ فقہ شیعہ اثناء عشری دیگر اسلامی فرقوں سے جداگانہ حیثیت رکھتی ہے اس لیے یہ اجتماع علماء شیعہ پاکستان سے پرزور مطالبہ کرتا ہے وہ شیعہ اوقاف جو سردست حکومت کی تحویل میں ہیں یا آئندہ زیر انتظام و انصرام حکومت آئیں ایسے جملہ اوقاف مجلس عمل علماء شیعہ پاکستان کے مجوزہ بورڈ کے حوالے کیے جائیں تاکہ ان کا صرف و خرچ منشاء واقف کے مطابق کیا جائے۔"
3- تحریک۔ مولانا سید نجم الحسن صاحب کراروی۔۔ تائید۔ مولانا مفتی جعفر حسین صاحب "چونکہ شیعہ اور غیر شیعہ اثناء عشری دینیات میں کچھ اہم بنیادی اختلافات ہیں اور موجودہ حالات میں شیعہ طلباء غیر شیعہ دینیات پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں جس کی بنا پر ایک طرف اپنی مذہبی تعلیم سے بیگانہ ہو جاتے ہیں دوسری طرف ان کی گھر کی تعلیم اور اسکول کی تعلیم میں تصادم ہوتا ہے اور یہ ٹکراؤ ان کے لیے بے حد مضر اور انتشار ذہنی کا باعث ہوتا ہے۔ اس لیے علماء شیعہ اثناء عشری کا یہ جلسہ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ سرکاری یا غیر سرکاری تعلیمی ادارے جن کو حکومت امداد دیتی ہے ان میں شیعہ دینیات کا جداگانہ انتظام کرکے ملت سے شیعہ اثناء عشری کے درینہ مطالبے کو پورا کرے۔"
4- تحریک۔ مولانا سید مرتضی حسین لکھنوی۔۔ تائید۔ مولانا حشمت علی "چونکہ موجودہ نصاب تعلیم میں جو سرکاری وغیرہ سرکاری اداروں میں رائج ہے وہ براہ راست شیعہ عقائد، تاریخ و ادب و ثقافت سے متصادم ہوتا ہے جس سے شیعان پاکستان میں شدید ہیجان پیدا ہو چکا ہے۔ علماء شیعہ کا یہ اجلاس برادرانہ فضا کو خوشگوار رکھنے کی خاطر حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ تمام مضامین تعلیم کے سلیبس میں شیعہ عقائد و تاریخ و ثقافت کے خلاف جو مواد موجود ہے اس کو خارج کیا جائے۔"
5- تحریک۔ مولانا محمد حسین صاحب۔۔ تائید۔ مولانا گلاب علی شاہ صاحب۔۔تائید مزید۔ مولانا محمد لطیف صاحب انصاری "چونکہ شیعہ اثناء عشری اور دیگر فرق اسلامی کی تفسیر و حدیث تقریبا نظر انداز کردیا گیا ہے۔ لہٰذا علماء شیعہ کا یہ مقدس اجتماع اپنی عزیز حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ اس سلسلے میں ہماری تفسیر، حدیث، فقہ کے تبادل کتب نیز امتحان کا انتظام شیعہ ممتحین کے ذریعے کرکے مساوات اسلامی کا ثبوت دے۔"
6- تحریک۔ شیخ غلام الحسنین صاحب پنڈت، مولانا شبیہ الحسین صاحب "علماء شیعان پاکستان کے نمائندہ اجتماع مقبوضہ کشمیر میں موئے مبارک کی چوری اور کشت واڑ کی محترم درگاہ کی بے حرمتی جیسے اندوہناک واقعات پر دلی غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے اور حکومت پاکستان کو یقین دلاتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو بھارت کی چیرا دستیوں سے آزاد کرانے کے لیے جو بھی موثر اقدام کرے گی ملت شیعہ اس کو کامیاب بنانے کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔"
7- تحریک۔ مولانا حافظ کفایت حسین صاحب۔۔ تائید۔۔ مولانا مفتی جعفر حسین صاحب "شیعہ اثناء عشریہ کا یہ اجتماع عزاداری امام حسین علیہ السلام کو شیعوں کے لیے شہ رگ حیات، مذہبی شعار نیز اقدار حیات کا مرکز سمجھتا ہے اور حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ دستور پاکستان اور بنیادی حقوق کی ذی ہوش ضمانتوں کے تحت ہر قسم کی آزادی مہیا کرے نیز اس راہ میں ہر قسم کی مزاحمتوں کو دور کرے تاکہ اعزادری حضرت سید الشہداء، مراسم محرم، و جلوس ہائے عزاء اور مجالس و محافل دینی کے اجتماعات کو محفوظ طریقے سے برقرار رکھ سکیں۔"
8- تحریک۔ مولانا شبیہ الحسنین۔۔ تائید۔ مولانا ملک مہدی حسن علوی "یہ اجتماع دینی، تجاویز کو عملی شکل دینے کے لیے ایک مجلس عمل کے قیام کا اعلان کرتا ہے جس کے سربراہ خطیب اعظم مولانا سید محمد صاحب قبلہ دہلوی ہوں گے اور خود اپنی صوابدی سے اپنے معاون نامزد فرمانے کے مجاز ہوں گے۔"
تجاویز پیش ہونے سے قبل اجتماع نے ان معززین ،اکابرین علماء کرام، مومنین کے لیے جو قوم کو داغ مفارقت دے گئے تھے سورہ فاتحہ پڑھی اور شہدائے ٹھیڑھی کے ارواح کو ایصال ثواب کے لیے کلام پاک کی تلاوت کی گئی۔ یہ بات بہت بڑی، حوصلہ افزا اور خوش کن تھی کہ اس اجتماع میں دو سے زائد علماء کرام شریک ہوئے، وہ اس امر میں پوری طرح متحد و متفق رہے۔ انہوں نے سرکار خطیب اعظم مدظلہ کو مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ اس سلسلے میں جناب مولانا عارف حسین صاحب (سندھ)، مولانا محمد اسماعیل (ادارہ تبلیغ شیعہ پاکستان کی طرف سے)، ڈاکٹر اعجاز حسین جعفری (مشرقی پاکستان)، مولانا شیخ علی صاحب (کوئٹہ)، قاری محمد عباس صاحب (سرحد)، مولانا سید نجم الحسن کراروی (پشاور)، مولانا محمد حسین صاحب (مدارس دینیہ کی طرف سے)، مولانا شبیہ الحسنین صاحب، مولانا ابن حسن صاحب نجفی (جمعیت علمائے پاکستان کی طرف سے)، مولانا مہدی حسن صاحب علوی، مولانا محمد بشیر صاحب انصاری (مجلس شیعہ علماء پاکستان کی طرف سے)، مولانا حشمت علی صاحب (سندھ کی طرف سے)، مولانا مشتاق احمد صاحب (پاکستان شیعہ کانفرنس کی طرف سے)، مولانا ضمیر الحسن صاحب نجفی، مولانا سید احمد علی صاحب (بلتستان کی طرف سے)، مولانا سید اظہر حسن صاحب زیدی (ادارہ تحفظ حقوق شیعہ کی طرف سے)، مولانا سید یوسف حسین صاحب (اسلامیہ مشن پاکستان کی طرف سے)، خواجہ محمد لطیف انصاری (امامیہ مشن کی طرف سے)، مولانا مرتضیٰ حسین صاحب فاضل لکھنوی (حسینی مشن پاکستان اور ادارہ معارف اسلام کی طرف سے) ہر ممکن تعاون کی پیش کش فرمائی۔ ہمارے خیال میں یہ اجلاس اپنے مقاصد کے لحاظ سے انتہائی کامیاب رہے۔ سرکار خطیب اعظم مدظلہ جلد ہی مجلس عمل کے معزز اراکین کو نامزد کرکے اپنی مساعی جمیلہ کو عمل میں لائیں گے اور ان شاءاللہ تعالی کامیابی ان کے قدم چومے گی۔
ہمیں نہایت افسوس ہے کہ پیام عمل کے محدود صفحات کی وجہ سے مکمل روئداد شائع نہیں کر سکے ہیں جس کے لیے ہم بہرحال معذرت خواہ ہیں۔
( ماہنامہ پیام عمل، لاہور فروری 1964ء)
خبر کا کوڈ : 1154520
منتخب
24 Nov 2024
23 Nov 2024
23 Nov 2024
23 Nov 2024
23 Nov 2024
22 Nov 2024