تحریر: سید نثار علی ترمذی
یہ یکم یا دو اگست 1988ء کی بات ہے کہ تحریک پنجاب کی صوبائی کابینہ کا ہنگامی اجلاس ملتان میں منعقد ہوا۔ لاہور سے اراکین کابینہ اجتماعی طور پر روانہ ہوئے۔ ابھی بس چلی تھی کہ ثاقب بھائی نے اپنے بیگ سے کتابیں نکالیں اور سب میں تقسیم کرکے کہا کہ فارغ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ مطالعہ کیا جائے۔ مغرب سے ذرا پہلے ملتان پہنچ گئے۔ اجلاس میں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اور ان کے رفقاء کی سعودی عرب میں گرفتاری پر غور ہوا۔ اجلاس میں پیش کی گئی رپورٹ اور مختلف ذرایع سے حاصل معلومات سے مسئلہ کی سنگینی کا احساس ہوا۔ بعض نے اس خدشہ کا اظہار بھی کیا کہ اسیران کو سزاے موت ہونے کا امکان ہے۔ اس حوالے سے فیصلہ ہوا کہ ایک بھرپور مہم چلائی جائے۔ ڈاکٹر شہید کیونکہ دوسرے نام کے پاسپورٹ پر گیے تھے، اس لیے ان کے اصلی نام سے رہائی کا مطالبہ کیا جائے۔
رات گیارہ بجے والی بس سے واپسی ہوئی۔ سارے راستے میں عجیب و غریب خیالات ذہن میں آتے رہے، جنہیں جھٹک کر دعاوں کی طرف موڑتا رہا۔ فیصلہ کے مطابق پریس ریلیز کے ذریعے رہائی کا مطالبہ کیا۔ 5 اگست کو قائد ملت جعفریہ علامہ عارف حسین الحسینی, نے لارڈز ہوٹل لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے سے اس مطالبہ کو اٹھانا تھا، اس کے علاوہ سیاسی معاملات پر پالیسی بیان دینا تھا۔ 5 اگست 1988ء کو چھٹی تھی۔ میں آٹھ بجے کے قریب گھر سے دفتر 2- دیو سماج جانے کے لئے روانہ ہوا۔ ویگن سے سیکریٹیریٹ سٹاپ پر اتر کر سڑک پار کرکے دفتر کی طرف روانہ ہوا۔ ان دنوں پوسٹ ماسٹر جنرل کی بلڈنگ کے عقب میں ایک خالی پلاٹ تھا، جس کو شارٹ کٹ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اس پلاٹ سے دفتر کی وہ گلی نظر آجاتی تھی۔
جیسے ہی میں پلاٹ میں پہنچا تو گلی سے ایک پک آپ گاڑی نکلتے دیکھی، جس پر سپیکر لگا ہوا تھا اور کوئی "اِنَّا لِلہِ و اِنَّا اِلَہِ راجِعُون" پڑھتا جا رہا تھا، گاڑی کے پیچھے شہید حسینی کی تصویر لٹک رہی تھی۔ میرے ذہن میں فوراً یہ خیال آیا کہ سعودی عرب سے کوئی ناگہانی خبر آگئی ہے۔ میرا تو دل اچھل کر گویا حلق میں آگیا ہو۔ میں نے بے ساختہ دوڑ لگا دی۔ جیسے ہی سڑک کراس کی تو باہر گیٹ پر برادر اسد عباس آف تلمبہ کھڑے تھے، وہ مجھے دیکھتے ہی زور زور سے کہنے لگ گیا، ترمزی صاحب قائد شہید ہوگئے، قائد شہید ہوگئے، قائد شہید ہوگئے۔ میں بے ساختہ اس کے گلے لگ گیا اور میں بار بار پوچھنے لگا کیا ہوا، کیا ہوا۔ اس نے روتے ہوئے بتایا کہ صبح گیلانی صاحب کا فون آیا، انہوں نے اطلاع دی کہ مدرسہ میں فائرنگ سے قائد شہید ہوگئے ہیں۔ میں نے پشاور احسان جعفری صاحب کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ قائد زخمی ہوئے ہیں، ہسپتال لے کر گئے ہیں، میں ابھی معلوم کرتا ہوں۔ ان کا بھی فون آگیا ہے کہ قائد شہید ہو گئے ہیں۔
ہم دونوں کتنی دیر تک ایک دوسرے کو گلے لگا کر روتے رہے۔ دفتر کے اندر چند لوگ تھے۔ برادر مقصود حسین گل، متواتر لکھے جا رہے، پریس ریلیز وغیرہ۔ برادر اعجاز جعفری آنے والے افراد کو تفصیل سے آگاہ کر رہے تھے۔ جو آتا تو ایک دوسرے سے گلے لگا کر گریہ کر رہا تھا۔ مجھے کہا گیا کہ میں ٹیلی فون کی ذمہ داری سنبھالوں۔ قائد شہید کی شہادت کا صدمہ اپنی جگہ، مگر اس سے زیادہ صدمہ اس اطلاع سے کہ نماز جنازہ شام چار بجے ادا ہوگی۔ باوسائل لوگ ہوائی جہاز یا ذاتی گاڑی یا فوراً ہی روانہ ہو کر جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کرسکتے تھے۔ مجھ سمیت بہت سے کارکن محروم رہ جاتے کہ پشاور سے اطلاع آئی کہ اب نماز جنازہ اگلے دن چار بجے ادا کی جائے گی اور امام خمینی کے خصوصی نمائندہ آیت اللہ جنتی نماز جنازہ پڑھائیں گے۔ یوں ہمارے جیسے کارکنوں کی حسرت امید میں بدل گئی۔ فوراً پروگرام بنایا کہ کل صبح چھ بجے یہاں سے اجتماعی روانگی ہوگی۔ سب شرکاء اپنا اپنا کرایہ ادا کریں گے۔
یہ پہلے طے کرچکے تھے کہ دو بجے کربلا گامے شاہ میں احتجاجی جلسہ ہوگا۔دیکھتے ہی دیکھتے کربلا گامے شاہ کا شروع والا صحن لوگوں سے بھر گیا۔ سب لوگ ایک دوسرے سے مل کر گریہ و تسلیاں دے رہے تھے۔ مقررین میں شیعہ سنی کی کوئی تفریق نہ تھی، ہر شخص اپنے جذبات کا اظہار کر رہا تھا۔ قریبی اضلاع سے شرکت کے لیے احباب پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ رات قریبی چائے خانہ میں نو بجے کی خبریں سنیں۔ میرے ساتھ برادر غضنفر نقوی آف اوکاڑہ بھی تھے۔ اس خبر نامہ میں جنرل ضیاء کا بیان دکھایا گیا، جس میں اس نے غلط بیانی کرتے ہوئے بہتان لگایا کہ اس کی شہید سے ملاقات تھی، جو حقائق کے برعکس تھا۔ شہید بھی ایک انٹرویو میں اس کی تردید کرچکے تھے۔ صبح کو چار یا چھ بسیں پشاور کے لیے روانہ ہوگئیں۔ راستہ میں رک کر کھانا کھایا، راولپنڈی میں نماز ادا کی۔ راستے میں کئی بسیں ملیں، جو پشاور جا رہی تھیں۔ دل میں فقط ایک دعا کہ نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہو جائے۔
پشاور سے بہت پہلے بسوں اور گاڑیوں کے جلوس میں شامل ہوچکے تھے۔ شہید کے مدرسہ "معارف اسلامی" سے پہلے ہی بسیں روک دی گئیں، سب لوگ پیدل چل پڑے، ایک عوام کا سیلاب تھا کہ جو جناح پارک کی طرف رواں دواں تھا۔ راستہ میں اطلاع ملی کہ جنازہ روانہ ہوچکا ہے۔ راستے میں ثاقب بھائی جو شمالی علاقہ جات گئے تھے، نظر آئے، سب لوگ ان سے مل کر گریہ و تعزیت کر رہے تھے۔ وہ منظر زیادہ درد ناک تھا، جب برادر مقصود گل اور ثاقب بھائی ایک دوسرے سے گلے لگ کر بلک بلک کر رو رہے تھے۔ جناح پارک میں صف بندی ہوچکی تھی، مجھے دوسری صف میں جگہ ملی۔ اتنے میں بائیں طرف سے اچانک جنرل ضیاء اپنے لاو لشکر کے ساتھ نمودار ہوا۔ پورا اجتماع قاتل قاتل ضیاء قاتل کے نعرے سے گونج اٹھا، مگر وہ آگے ہی بڑھتا رہا۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہی علامہ افتخار حسین نقوی صاحب سپیکر پر آئے اور کہا کہ مہمان جیسا بھی ہو، اس کا احترام کیا جائے، یہی ہماری روایت ہے۔ مجمع پورے جوش کے ساتھ کھڑا تھا اور نعرہ زن تھا کہ علامہ افتخار صاحب کی آواز گونجی کہ سب لوگ بیٹھ جائیں۔ امام خمینی کے نمائندے آیت اللہ جنتی خطاب فرمائیں گے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ اس اعلان پر سب سے پہلے جنرل ضیاء زمین پر بیٹھ گیا۔ خطاب کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی۔ مکبر قاری محمود مرحوم آف لاہور تھے۔ یہی موقع تھا، جب برادر سجاد میکن نے جنرل ضیاء کا بازو پکڑ کر ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا اور اس نے وعدہ کیا تھا۔ اعلان ہوا کہ اب جنازہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے پارا چنار لے جائے گا، جہاں کل دس بجے نماز جنازہ ہوگی، جو لوگ پارا چنار جانا چاہیں ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست ہے۔
پنجاب کابینہ کے لوگ علامہ افتخار صاحب کے ہمراہ ایک ویگن میں علمدار ہوٹل آگئے، تاکہ مجودہ صورت حال پر بات ہوسکے، مگر فوراً ہی اطلاع آگئی کہ علامہ صاحب نے تو جنازے کے ساتھ جانا ہے. وہ ادھر روانہ ہوئے اور ہم مدرسہ آگئے، وہاں برادر احسان جعفری سے ملا۔ وہ ملازمت سے طویل رخصت لے کر مرکزی آفس کو سنبھالنے آئے تھے۔ ابھی ہفتہ دس دن ہی ہوئے تھے کہ یہ سانحہ ہوگیا، وہ بہت ہی گریہ کر رہے تھے۔ جب میں رخصت ہونے لگا تو جعفری صاحب نے کہا کہ یہاں پر میں اکیلا ہوں، کل سے لوگ تعزیت کرنے والے آئیں گے تو انہیں بھی اٹینڈ کرنا ہوگا، دفتر کا بھی کافی کام ہے۔ دوسرے اتنے بڑے صدمہ کے بعد کوئی ہم زبان نہیں کہ جس سے دل کی بات کی جا سکے، لہذا تم یہیں رک جاو۔ میں نے ملازمت کا بہانہ بھی کیا، مگر اصرار اتنا تھا کہ میں رک گیا۔ ایک دفتر کے ساتھی آئے ہوئے تھے، اسے میں نے چھٹی لکھ کر دینے کو کہہ دیا، خود مدرسہ میں ٹھہر گیا۔
دفتر نے میری درخواست پر فوری ضابطہ کی کارروائی کرتے ہوئے مجھے ملازمت سے معطل کر دیا اور معطلی نامہ میرے گاوں کے پتے پر بھیج دیا۔ اسی دوران دفتر کے لوگوں نے تحریک کے دفتر فون کرکے پیغام بھیجا کہ اگر میں واپس آجاوں تو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ میں واپسی کے لیے مدرسہ سے نکلا ہی تھا کہ اطلاع آگئی کہ جنرل ضیاء کا طیارہ کریش کر گیا ہے۔ ممکنہ حالات کی بنا پر سفر ملتوی کر دیا۔ ریڈیو پر خبریں سننے لگ گئے۔ تیس چالیس پارا چنار کے لوگ وہاں رکے ہوے تھے، وہ خوشی کے اظہار میں فائرنگ کرنا چاہتے تھے، انہیں بڑی مشکلوں سے روکا۔ محرم تھا، مگر وہ رات گیے مٹھائی لے آئے۔ اگلی صبح کو میں لاہور کے لیے روانہ ہوگیا، جب میں دفتر پہنچا تو ہر شخص نے کہا شاہ آخر بدلہ لے کر ہی دفتر واپس آئے ہو۔