تحریر: سید تنویر حیدر
اسلامی جمہوریہ ایران کے انتخابات کا دوسرا مرحلہ سر پر ہے۔ ایران کے اس انتخابات پر اپنے پرائے سب نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ایران کی عوام کو عام طور پر دو طرح کے طبقات فکر میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک اصول گرایان اور دوسرے اصلاح طلبان کے نام سے معروف ہیں، جو مغرب کی اصطلاح میں انتہاء پسند اور لبرل یا آزاد خیال کی تقسیم پر کسی حد تک پورا اترتے ہیں۔ اصول گرایان اصل میں امام خمینی کی انقلابی فکر کے داعی ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں اصلاح طلبان اس فکر میں نرمی کے خواہاں ہیں۔ ان کے خیال میں امریکہ کے ساتھ ایران کے بہتر تعلقات ہونے چاہئیں اور ایران کو مشرق وسطیٰ کے معاملات میں اپنے آپ کو الجھانا نہیں چاہیئے۔
ایران کے حالیہ الیکش کے پہلے مرحلے میں چار صدارتی امیدوار تھے۔ جن میں دو امیدوار سعید جلیلی اور قالیباف ایک ہی کیمپ یعنی انقلابی فکر کے حامل کیمپ سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں سے ہر دو کی جیت کے امکانات زیادہ تھے۔ اس صورت میں انقلابی کیمپ کے ووٹ باہم تقسیم تھے۔ اس کے مقابلے میں آزاد پسندوں کے مضبوط امیدوار پزشکیان تھے۔ الیکش کے ابتدائی مرحلے میں انقلابی دھڑے کے امیدوار سعید جلیلی اور اصلاح پسند پزشکیان نے تقریباً برابر ووٹ حاصل کیے۔ انتخابات کے اگلے مرحلے میں اب ان دو امیدواروں کے مابین ہی مقابلہ ہے۔
لیکن اس مرحلے میں امید کی جاتی ہے کہ انقلابی دھڑے کے ووٹ ایک ہی بیلٹ بکس میں جائیں گے، جس کے نتیجے میں سعید جلیلی کو پہلے انتخابی مرحلے کی نسبت زیادہ ووٹ پڑیں گے، جس سے ان کے جیتنے کے بظاہر کافی امکانات ہیں۔ اس انتخاب میں اگر پزشکیان جیت گئے تو مغرب اس کا مطلب یہ لے گا کہ عوام کی اکثریت نے آیت اللہ خامنہ ای اور نظریہ ولایت فقیہ پر کسی حد تک عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح کی صورتحال پہلے بھی کئی معاملات میں کئی دفعہ پیش آچکی ہے، لیکن ایران کی شہید پرور عوام نے ہمیشہ انقلاب کی بنیادوں کو مضبوط کیا ہے۔
ایران کے حوالے سے ایک حقیقت بہرحال پیش نظر ہونی چاہیئے کہ انقلاب اسلامی دو گروہوں کے درمیان خونی تصادم کے نتیجے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس معرکے میں ایک گروہ غالب ہوا اور ایک مغلوب۔ ایران میں ہر شخص انقلابی فکر کا حامی نہیں ہے۔ ایرانی عوام کا ایک قابل ذکر حصہ ایران کی انقلابی حکومت کی فکر سے متفق نہیں ہے۔ یہ طبقہ گذشتہ پچاس سالوں سے کسی نہ کسی بہانے سے گاہے گاہے اپنی تحریک شروع کرتا ہے اور آخرکار ناکامی کا منہ دیکھتا ہے۔ اس انقلاب کی اصل نمائندگی جنرل قاسم سلیمانی شہید اور شہید صدر رئیسی جیسے افراد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ پاسداران انقلاب اسلامی ہیں، جو انقلاب اسلامی کے محافظ ہیں اور انقلاب جن کی روح کی گہرائی تک سرایت کیے ہوئے ہے۔
لہذا ایران کی زمینی حقیقت کو دیکھتے ہوئے کم از کم یہ توقع کوئی نہ رکھے کہ انقلاب کے ان وفاداروں کے ہوتے ہوٸے کوئی انقلاب کی جڑوں کو کاٹ سکے گا بلکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ جب بھی ایران کسی مشکل سے گزر کر آیا ہے تو اس کے بعد وہ مزید طاقتور کی حیثیت سے ابھرا کر آیا ہے۔ البتہ یہاں مسئلہ ایران میں بدلتی حکومتوں کا نہیں ہے بلکہ معاملہ دین کا ہے، جس کی بقا کا ضامن خود خدا ہے۔ خدا نے جس طرح اپنے آخری پیغام میں عربوں پر واضح کر دیا تھا کہ اگر وہ دین سے پھر گئے تو خدا ان کی جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا، جو ان جیسے نہیں ہوں گے۔
رسول خدا نے اس قوم کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا تھا کی وہ قوم سلمان فارسی کی قوم یعنی ایرانی قوم ہے۔ لہذا اگر فرض کر لیا جائے کہ اہل ایران اپنے انقلابی راستے سے ہٹ جاتے ہیں تو خدا حسب وعدہ اپنے دین کی بقا کے لیے ان کی جگہ اور لوگ میدان عمل میں لے آئے گا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح اہل یمن اپنے پہاڑوں سے نکل کر سمندر کی گہرائیوں تک اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ قوم ایمان کے اس درجے پر ہے، جہاں کسی قسم کی مصلحت اس کے آڑے نہیں آتی۔