تحریر: ارشاد حسین ناصر
کربلا سے تمسک رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ فتح اور شکست کے پیمانے کیا ہیں۔ اسلحہ، طاقت، اختیار، مال و زر، لمبی چوڑی فوج، اقتدار پر قبضہ، زور زبردستی، قتل و غارت، شکنجے، اسیری، لوٹ مار، ڈر، خوف اور ایسے دیگر تمام منفی ہتھکنڈے رکھنے اور استعمال کرنے کے بعد اگر جنگ مسلط کی جائے اور بہتر کے مقابل ہزاروں کا لشکر لایا جائے، ان بہتر کو تہہ تیغ کر دیا جائے اور ان کی لاشوں کو پامال کرتے ہوئے ان کے خانوادوں کو اسیر کرکے بے کچاوہ اونٹوں پر سوار کرکے شہر شہر، بازاروں اور درباروں میں ان کا تماشا بنانے کی کوشش کی جائے اور تمسخر کیا جائے۔ اپنی فتح کا جشن مناتے دیگر ملکوں کے سفراء و حکمرانوں کو بلا لیا جائے تو ایسی حالت میں بھی خود کو فاتح سمجھنے والوں کی شکست کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایسی نام نہاد، جھوٹی فتح کو شکست میں تبدیل کرنے کا ہنر حق کے متوالے جانتے ہیں۔
تاریخ کے اس باب کو چودہ صدیاں گذر جانے پر بھی آج ایک اسوہ اور حق کے راستہ کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے تو نتائج بھی ویسے ہی ملتے ہیں۔ ویسے ہی حاضر تاریخ وقت کے ظالمین اور غاصبین کو بے نقاب اور شرمندہ کرتی ہے۔ وقت کا جابر و ظالم ایسے ہی رسوا ہوتا ہے، جیسے اکسٹھ ہجری کا جابر و ظالم و غاصب، ابو سفیان کا پوتا یزید ابن معاویہ ہوا تھا۔ کل کے ظالم و جابر اور غاصب کے ساتھی، اس کا ساتھ دینے والے، اس کے ظلم پر چپ سادھنے والے اور اس کی اعلانیہ و خاموش مدد کرنے والے آج تک تاریخ کے اوراق میں رسوائی سمیٹ رہے ہیں تو آج کے ظالم و جابر، غاصب کے ساتھی، اس کا خاموشی کیساتھ یا اعلانیہ ساتھ دینے والے اس کیلئے راستے بنانے اور کھولنے والے، اس کی صفوںمیں شامل ہیں اور وقت کا مورخ جو چودہ صدیوں سے کہیں زیادہ موثر، موثق اور تیز و طرار ہے، انہیں رسوا کر رہا ہے اور مزید ہوتے رہینگے۔
میڈیا پر جتنا بھی کنٹرول سہی، مگر سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے چہروں سے نقاب اتر رہے ہیں اور اترتے رہینگے۔ حق والوں کی فتح اور جیت روز روشن کی طرح عیاں اور واضح و روشن ہے، جسے ہر ایک دیکھ رہا ہے، ہر ایک محسوس کر رہا ہے، ہر ایک نظر رکھے ہوئے ہے اور کربلا والوں کا تو شیوہ ہی یہی ہے کہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگتے نہیں، وہ بہتر ہو کر بھی دلیری اور شجاعت کے نمونے پیش کرتے ہیں اور فتح و شکست کے معیارات کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ سات اکتوبر23ء اہل غزہ، اہل فلسطین کا ایسا معرکہ تھا، جس نے دنیا کو ایک الگ شناخت دے دی ہے۔ سات اکتوبر سے لے کر آج تک دنیا میں جو کچھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے اور جو ہونے جا رہا ہے، اس پر گہری نگاہ رکھنے اور اپنے کردار کا تعین کر کے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ روز حشر یہ سوال ہوگا کہ تمہارے سامنے یہ ظلم ہوتا رہا، اس ظلم کے سامنے فلان فلان کھڑے ہوئے، فلان نے یہ کردار ادا کیا، فلان نے یہ قربانی پیش کی، تم نے کیا کیا، کس کا ساتھ دیا، حق و باطل کے معرکے میں حق کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔؟
اکسٹھ ہجری کے معرکہ حق و باطل میں بھی ششماہے کے گلے پر تیر چلانے والے، علی اصغر (ع) کی مسکراہٹ سے ہار گئے تھے اور آج کے معرکہ حق و باطل میں بھی دنیا کی بڑی، جدید اسلحہ اور طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا ظالم ناجائز حکومت ہار چکی ہے۔ اس وقت بھی تلوار پر خون نے فتح پائی تھی تو آج بھی خون کے نذرانے پیش کرنے والے وقت کے امام کے سپاہیوں کی داد شجاعت سے فتح کا نقارہ بجتا سنا جا سکتا ہے۔ اکسٹھ ہجری کے معرکہ حق و باطل میں بھی منافقین مکہ کے سردار کے طرفداروں کے سر شرم سے نہیں اٹھ سکتے اور آج کے تکفیری، ناجائز ریاست، گندگی اور بدبودار کردار کے حامی و طرفدار منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ ان کے حصہ میں سات اکتوبر کے بعد سے مسلسل شرمندگی، رسوائی اور خسارہ ٰہے، جسے وہ جھوٹ، افتراء، پراپیگنڈہ، مکر، دجل سے اپنی فتح و کامرانی میں تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور من گھڑے الزامات کے سہارے اپنا قد اونچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مگر دنیا بالخصوص جہاد، شہادت، مقاومت، مزاحمت کے دروازوں کے بھوکے اور پیاسے اہل فلسطین، اہل لبنان، اہل یمن، اہل عراق، اہل شام، اہل حجاز، اہل عرب و عجم اب اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کون ہے مظلوموں کا حامی و مددگار، کون ہے پسے ہوئے، دبا دیئے گئے مجبور فلسطینیوں کا پشت پناہ، وہ دیکھ رہے ہیں کہ نام نہاد مسلمانی کا دعویٰ کرنے والے، اسلام، جہاد کے سبق پڑھانے والے کسی فلسطینی، کسی اہل غزہ کے مظلوم کو ایک بوتل پانی دینے پر بھی لوگوں کو سزا دے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والوں کو پابند سلاسل کر رہے ہیں، جیلوں میں ڈال رہے ہیں، انہیں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ جن لوگوں نے سید و سردار اور ان کے رفقاء کی شہادت پر جشن منائے، ہمارے لیے یہ کچھ نیا نہیں تھا، تاریخ ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے۔ وہ انہی کرداروں کے وارث تھے اور جو لوگ راہ حق میں، باطل سے ٹکراتے ہوئے شہادتوں کو گلے لگا کر اپنی منزل کو پا گئے، وہ ان روشن کرداروں کے وارث تھے۔ جن کے نام پر مزاحمت زندہ ہے، جو مقاومت اور ٹکرانے کا اسوہ اور راستہ دکھانے والے ہیں۔
مگر یاد رہے کہ بہتر کو شہید کرکے اگر اس دور کے ظالم، سفاک کی حکومت باقی نہیں رہی تھی اور اس کا کردار چودہ صدیاں بعد بھی لعنت کے طوق کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے تو آج کے جشن منانے والے اور شہادتوں پر خوش ہونے والوں کے چہروں پر بھی پھٹکار پڑتی رہیگی، چونکہ وہ اسی کے حقدار ٹھہرے ہیں، جبکہ حق روشن ہونے سے ہمیشہ چمکتا رہیگا اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ حق کی اس چمک دمک نے لوگوں کی بند آنکھیں کھول دی ہیں اور وہ ان کرداروں کی وجہ سے، امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) کی ولایت کا اقرار کرتے ہوئے اپنے مکتب کا اعلان کر رہے ہیں۔ اپنے سابقہ کردار اور عمل پر کف افسوس ملتے ہوئے داخل قلعہ ولایت ہو رہے ہیں۔ یہ اس فتح کی علامت ہے، جو تمہیں بے چین کر رہی ہے، جس نے تمہاری نیندیں حرام کر دی ہیں، جو سب کو چبھ رہی ہے اور ان کو اپنا مستقبل تاریخ دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا ہونا ہی تھا، اس لئے کہ خالص خدا کیلئے کام کرنے والوں کو اللہ کریم نے استقامت و فتح سے نوازنا تھا، یہ اس کا وعدہ ہے، بس یقین کی منزل و مقام کو سمجھنے والے ہی ایسی منزل پاتے ہیں۔
آج کی دنیا نے اہل بدر کو نہیں دیکھا، خندق کی صعوبتوں میں منافقین مکہ کا مقابلہ کرنے والوں کو صرف کتابوں میں پڑھا ہے، شعب ابی طالب کی سختیوں کو صرف تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں لکھا دیکھا ہے۔ احد کے بھگوڑوں کی داستان بھی اس نسل نے سن رکھی ہے، منافقین کے گروہ کی سازشوں کا بھی کچھ نا کچھ اندازہ رکھتے ہیں۔ آج کے میدان کارزار اور داستان ہائے مقاومت و مزاحمت میں یہ سب انہیں عملی طور پر نظر آرہا ہے۔ لہذا اس نسل نے حق کو قبول کرنا ہے اور کر رہی ہے۔ کچھ اعلان کر رہے ہیں اور کچھ حالات کے ہاتھوں مجبور اعلان کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ حق نے آنا تھا اور وہ آکر رہتا ہے، فتح حق کے طرفداروں کی ہے، جو ان سے کوئی نہیں چھین سکتا کہ اس راہ میں انہوں نے بہت ہی پاکیزہ لہو پیش کیا ہے۔ بہت ہی اہم قربانوں کے بعد فتح کا نقارہ بجتا سنا جا سکتا ہے۔ یمن کے مقاومین کو سلام، لبنان کے مجاہدین کو سلام، عراق کی مزاحمت کو سلام، جمہوری اسلامی کے فرزندان کو سلام، شام کے مجاہدین، فتح مندوں کو سلام۔