تحریر: سید رضا میر طاہر
ہیومن رائٹس واچ نے خبردار کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسری بار صدارت کے عہدے تک پہنچنا نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لیے خطرہ ہے۔ لہذا آزاد اداروں اور سول سوسائٹی کو نئے صدر کو اس حوالے سے جوابدہ ٹھہرانا چاہیئے۔ انسانی حقوق کی اس تنظیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "ایمنسٹی انٹرنیشنل آرگنائزیشن" کے مطابق امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت اس ملک کے اندر اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ یہ خدشات ٹرمپ کی گذشتہ صدارت کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تاریخ کو سامنے رکھ کر اٹھائے گئے ہیں، جس میں ٹرمپ کو سفید فام بالادستی، جمہوریت مخالف اور انسانی حقوق مخالف پالیسیوں کا حامی ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے انتخابی وعدوں میں لاکھوں تارکین وطن کو اکٹھا کرکے ملک بدر کرنا اور سیاسی مخالفین سے انتقام لینا شامل ہے۔
انسانی حقوق کی اس تنظیم کی جانب سے ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد امریکہ اور دنیا کے لیے انسانی حقوق کی پامالی ایک ایسا موضوع ہے، جو ٹرمپ کی اس میدان میں تباہ کن کارکردگی سے مربوط ہے۔ جنوری 2017ء سے جنوری 2021ء تک اپنی صدارت کی پہلی مدت کے دوران ٹرمپ نے ریاستہائے متحدہ میں نسل پرستانہ خیالات اور اس منفی نقطہ نظر کو پوری طرح فروغ دیا اور یہاں تک کہ کچھ معاملات میں سفید فام نسل کی بالادستی کو کھلے عام بیان کیا۔ ٹرمپ نے رنگین یا لاطینی لوگوں کے ساتھ جو نکتہ نظر اپنایا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ٹرمپ نے متعدد ممالک کے مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگا کر تارکین وطن کے ساتھ مذہبی امتیاز پر مبنی نقطہ نظر کو رواج دیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باقاعدہ ریکارڈ مرتب کیا ہے۔ اس دستاویز میں پناہ کے متلاشیوں کے خلاف اقدامات، امریکہ-میکسیکو سرحد پر خاندانوں کو الگ کرنا، سیاہ فام برادریوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کے خلاف نسل پرستی کو فروغ دینا، کم آمدنی والے خاندانوں کو سزا دینے کی پالیسیاں اپنانا اور انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کے لئے پرتشدد فسادات کو ہوا دینے جیسے واقعات شامل ہیں۔ ٹرمپ کے آمرانہ انداز کا حوالہ دیتے ہوئے، ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "پروجیکٹ 2025ء" ٹرمپ کے سابق سیاسی مشیروں اور اتحادیوں کی طرف سے تیار کردہ ایک حکومتی پروگرام ہے، جو نسل پرستانہ اور جارحانہ پالیسیوں کا خاکہ پیش کرتا ہے، جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ اپنا سکتی ہے۔
اگرچہ ٹرمپ نے اس منصوبے سے اپنے تعلق کی تردید کی ہے، لیکن ان کے بہت سے الفاظ اس پروگرام کے اصولوں سے ملتے جلتے ہیں۔ ٹرمپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین سے بدلہ لیں گے۔ ٹرمپ بڑے تنازعات اور بحرانوں میں انسانی بنیادوں پر امداد نیز شہریوں کے تحفظ کے لیے کی جانے والی کوششوں کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ دوسری طرف ٹرمپ کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی حکومتوں کے ساتھ تعاون کرنے کا امکان ان حکومتوں کو مضبوط کرنے کا باعث بن سکتا ہے، جو اپنی جگہ پر اس ملک کے عوام کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس سے عام لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے اور اس سے دنیا بھر میں عوام سے بدسلوکی اور نسلی تعصب میں اضافہ ہوتا ہے۔
ٹرمپ کا انسانی حقوق کے معاملے میں دوہرا رویہ ہے، جو ان کے انسانی حقوق کے سابقہ ریکارڈ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جس وقت انہوں نے اپنی پہلی مدت صدارت میں اقتدار سنبھالا تو انہوں نے کھلے عام اعلان کیا کہ ان کا ملکی مسائل، بالخصوص امریکہ میں انسانی حقوق کی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ انسانی حقوق کے حوالے سے واشنگٹن کا دوہرا نقطہ نظر ہے۔ وہ اپنے ہاں انسانی حقوق کی پامالی کو جائز سمجھتے ہیں جبکہ ان ممالک کے بارے میں وہ انتہائی حساس ہیں، جو امریکہ کے دشمن یا حریف ہیں، لیکن وہ ان ممالک کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہیں، جو واشنگٹن کے دوست اور اتحادی ہیں۔ اس کی ایک مثال سعودی عرب ہے۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے صحافی جمال خاشقجی کے وحشیانہ قتل کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ نے کوئی منفی ردعمل یا کارروائی نہیں کی، نہ اس حوالے سے سعودی عرب کو سزا دینے کا سوچا۔
دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران میں 2019ء کے فسادات میں انسانی حقوق کے محافظ کے طور پر ایران کے حکومت مخالف مٹھی بھر ایرانی شہریوں کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے حوالے سے اپنے ناجائز مطالبات کے حصول کی امید میں ان فسادیوں اور مشتعل افراد کی حمایت کی اور عالمی برادری سے تعاون کا مطالبہ کیا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے 2018ء میں عالمی ایٹمی معاہدہ جے سی پی او اے سے دستبرداری کے بعد ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اپنائی اور ایرانی قوم کے خلاف سخت ترین، ظالمانہ اور انسانیت سوز پابندیوں کا نفاذ کیا۔ بلاشبہ اس طرح کے اقدامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ٹرمپ انسانی حقوق کے معاملے کو امریکی تسلط کی مخالفت کرنے والے ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے، جبکہ دوسری طرف وہ امریکی اتحادیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں کو مکمل نظر انداز کرتا ہے۔