تحریر: محمد علی زادہ
آخرکار جس طرح پہلے سے توقع کی جا رہی تھی فرانس کے حالیہ پارلیمانی الیکشن میں انتہاپسند قومیت پرست سیاسی جماعتوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کو مات دے دی اور عوامی مینڈیٹ کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی جماعتیں بن کر سامنے آئی ہیں۔ الیکشن کے پہلے مرحلے میں میرین لوپن اور اس کے اتحادیوں نے الیزے پیلس پر شدید ترین ممکنہ ضرب لگائی ہے اور اب وہ دوسرے مرحلے میں اپنی کامیابیوں کا سلسلہ مکمل کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔ اگرچہ فرانس کے آئین کی روشنی میں ایمونوئیل میکرون 2027ء تک بدستور فرانسیسی صدر باقی رہ سکتے ہیں لیکن انہیں یقیناً نئی پارلیمنٹ اور اس کی جانب سے چنے گئے نئے انتہاپسند قومیت پرست وزیراعظم کا سامنا کرنا پڑے گا۔ زیادہ بہتر الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو کہیں گے کہ فرانس 2027ء تک اگلے چند سالوں کے دوران سیاسی اور انتظامی لحاظ سے شدید بحران کا شکار رہے گا۔
اس بحران کا نتیجہ لامحالہ اس ملک میں انارکی اور لاقانونیت کی صورت میں ظاہر ہو گا جس کا دائرہ مستقبل میں یورپی یونین تک بھی پھیل سکتا ہے۔ دوسری طرف یورو خطے، یورپی یونین اور مغربی فوجی اتحاد نیٹو می فرانس کے مرکزی کردار سے چشم پوشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ فرانسیسی شہری گذشتہ چند عشروں کے دوران اہم ترین انتخابات میں سے ایک کے دوران پارلیمنٹ کے 577 اراکین کے انتخاب کیلئے ووٹ ڈال چکے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمونوئیل میکرون نے 9 جون کے دن ایسے حالات میں پارلیمنٹ تحلیل کر دی تھی جب یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں ان کی پارٹی نے بہت کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور اس میں دائیں بازو کی انتہاپسند جماعت "قومی اجتماع" کامیاب ہو گئی تھی۔ لہذا اب فرانس میں پارلیمنٹ کے مڈٹرم الیکشن کا انعقاد ہوا چاہتا ہے۔
ناقابل تسلیم فرانس نامی پارٹی کے سربراہ جان لاک میلنشن، جو نئے عوامی محاذ میں بھی شامل ہیں نے الیکشن کے ابتدائی نتائج اعلان ہو جانے کے بعد اپنی تقریر میں کہا کہ ایمونوئیل میکرون کو سنگین اور ناقابل انکار شکست ہوئی ہے۔ انہوں نے فرانسیسی عوام سے مطالبہ کیا کہ وہ اگلے ہفتے دائیں بازو کی انتہاپسند جماعتوں کے خلاف ووٹ ڈالیں۔ اعلان شدہ نتائج کی روشنی میں نیا عوامی محاذ، قومی اجتماع پارٹی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگے ہفتے کے الیکشن میں وہ ان حلقوں میں اپنے امیدوار بٹھا دیں گے جہاں دائیں بازو کی انتہاپسند جماعت کسی دوسری جماعت کے ہمراہ دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہو اور بائیں بازو کی جماعت تیسرے نمبر پر آئی ہو۔ انہوں نے کہا: "ہمارا ایجنڈہ سیدھا سادہ اور واضح ہے، قومی اجتماع کیلئے نہ ایک ووٹ زیادہ اور نہ ایک سیٹ زیادہ۔"
فرانسیسی پارلیمنٹ کی ترکیب بدل جائے گی
اتوار 7 جولائی کے دن پارلیمانی الیکشن کا دوسرا مرحلہ منعقد ہو گا جس کے بعد فرانسیسی پارلیمنٹ میں سیاسی ترکیب بڑے پیمانے پر تبدیل ہو جانے کا امکان دکھائی دے رہا ہے۔ تحقیقاتی ادارے آئپس ٹیلن کی سروے رپورٹ کے مطابق دائیں بازو کی انتہاپسند جماعت قومی اجتماع اور اس کے اتحادی ممکن ہے 230 سے 280 سیٹیں حاصل کر لیں۔ یہ تعداد گذشتہ پارلیمنٹ سے بہت زیادہ ہے جب ان کے پاس صرف 88 سیٹیں تھیں۔ درحقیقت اس تعداد میں صرف 204 سے 244 تک قومی اجتماع کے اراکین شامل ہیں جبکہ ایرک سایوتی کے حامی بھی ممکن ہے 26 سے 36 سیٹیں حاصل کر لیں۔ یہ دو ہم فکر سیاسی جماعتیں آپس میں اتحاد تشکیل دے کر فیصلہ کن اکثریت کے قریب ہو سکتے ہیں جس کیلئے 289 سیٹیں ہونا شرط ہے۔ یہ مسئلہ بذات خود انتہائی درجہ اہم ہے کیونکہ اس حد کو پار کرنے کے بعد دائیں بازو کی انتہاپسند جماعتیں حکومت بھی تشکیل دے سکیں گی۔
تنازعات جو ابھی سے شروع ہو گئے ہیں
ان دنوں میرین لوپن کی سربراہی میں دو قومیت پسند اتحاد اور ایمونوئیل میکرون کی سربراہی میں قومیت پسند مخالف اتحاد کے درمیان ٹکراو اپنے عروج تک جا پہنچا ہے۔ میرن لوپن، دائیں بازو کی انتہاپسند جماعت قومی اجتماع کی سربراہ ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان کی پارٹی اگلی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئی تو وہ صدر ایمونوئیل میکرون کو فوج کے چیف کمانڈر ہونے کے ناطے یوکرین فوج بھیجنے کی اجازت نہیں دیں گی۔ دوسرے الفاظ میں یوکرین جنگ سے متعلق فرانس کی آئندہ پالیسی کا دارومدار بہت حد تک حالیہ الیکشن کے نتائج پر ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ اکثر فرانسیسی شہری یوکرین جنگ میں الیزے پیلس کی جانب سے حد سے زیادہ مداخلت کے مخالف ہیں۔ بہرحال، فرانس کی جانب سے یوکرین جنگ میں شمولیت کا مطلب روس کی جانب سے ردعمل ظاہر ہونا ہو گا اور یہ اکثر فرانسیسی ووٹرز کیلئے ریڈ لائن تصور کی جاتی ہے۔
حالیہ سروے رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی اجتماع پارٹی 36 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے جو ممکن ہے پارلیمنٹ میں فیصلہ کن اکثریت حاصل کر کے غلبہ پانے کیلئے کافی نہ ہو۔ روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن شروع کئے جانے کے بعد ایمونوئیل میکرون نے یوکرین کی بھرپور حمایت کی ہے اور جنگ شدید ہو جانے کی صورت میں یوکرین فوج بھیجنے کا امکان بھی مسترد نہیں کیا۔ کئی دیگر ممالک نے بھی یوکرین جنگ کے بعد ایمونوئیل میکرون کے موقف کی حمایت کی ہے۔ دائیں بازو کی انتہاپسند جماعتوں کے اعلی سطحی رہنماوں کا کہنا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہونے کی صورت میں صدر کے اختیارات محدود کر دیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ میکرون یوکرین فوج نہیں بھیج سکیں گے۔ میرین لوپن کے اس موقف نے فرانس میں نئے تنازعات کو جنم دیا جو مستقبل قریب میں شدید بحرانی حالات کی خبر دے رہے ہیں۔