اسلام ٹائمز۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنماء جاوید لطیف نے کہا ہے کہ مذاکرات کا حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) دونوں کو فائدہ نہیں ہوگا اور اگر ملزمان کو بچانے کی کوششوں نہ ہوتی تو اب تک 9 مئی واقعات کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنماء جاوید لطیف نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے مذاکرات کرنے ہوتے ہیں، ان کے ایسے رویئے نہیں ہوتے، میں دونوں جانب سے رویوں کی بات کر رہا ہوں، ایک جانب یہ گریبان پکڑے ہوئے تو دوسری جانب پاوں پکڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک جانب مذاکرات تو دوسری جانب سول نافرمانی کی باتیں ہو رہی ہیں، ایسی صورت حال میں حکومت کیسے مذاکرات کرسکتی ہے، مذاکرات کا حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کو فائدہ نہیں ہوگا۔ پی ٹی آئی کے انتخابات میں دھاندلی سے متعلق کمیشن بنانے کے مطالبے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ پورا سچ بولا جائے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ مرضی کا کمیشن بنا لیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم نے 2018ء کے انتخابات کے حوالے سے کمیشن بنانے کی بات نہیں کی تھی، کیا ہمارے مطالبے پراس وقت کمیشن بنایا گیا، اب کمیشن کون بنائے گا، 2015ء انتخابات کے معاملے پر کمیشن کون بنائے گا، دونوں انتخابات 2018ء اور 2024ء کے الگ الگ بینیفیشری تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے 2018ء کے انتخابات کا نتیجہ بتانا پڑے گا، دونوں کا الگ الگ مؤقف ہے، دونوں جماعتیں کوئی متفقہ فیصلہ کیوں نہیں کرلیتیں۔ پروگرام کے میزبان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کا جرم یہ ہے کہ حکومت گرانے، 9 مئی اور آرمی چیف تعیناتی پرایسی منصوبہ بندی کی جو آج تک کسی نے نہیں کی، یہی ان کا جرم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دیگر جماعتوں کے لوگ بھی فیضیاب ہوتے رہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا فیض حمید خود سے آرمی چیف بن سکتے تھے، صدارتی نظام لانا ان کا منصوبہ تھا، یہ نہیں ہوسکتا کہ فیض حمید خاموش رہتے، یہ سب ملے ہوئے تھے، ایک کو نکال اور باقی دو کو چھوڑ دیں تو ایسے انصاف کو کوئی قبول نہیں کرے گا۔ جاوید لطیف نے کہا کہ میں نے کسی کو بچانے یا نام لینے سے کبھی گریز نہیں کیا، ملزمان کو بچانے کی کوشش نہ کی جاتی تو اب تک 9 مئی واقعات کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔