0
Thursday 14 Nov 2024 20:54
سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے، جماعت اسلامہی ہند

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور مدارس سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل تحسین، مسلم رہنماء

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی درجہ برقرار، سپریم کورٹ کا فیصلہ
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور مدارس سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل تحسین، مسلم رہنماء
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

سپریم کورٹ آف انڈیا کے سات ججوں پر مشتمل آئینی بنچ نے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے واضح کیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کا اقلیتی درجہ برقرار رہے گا۔ سپریم کورٹ نے پرانے فیصلے کو 4-3 کی اکثریت سے بدل دیا۔ اب عدالت نے تین ججوں کی بنچ کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اس نئے فیصلے میں دیئے گئے اصولوں کی بنیاد پر مسلم یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت کا دوبارہ تعین کرے۔ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے عزیز باشا بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس میں 1967ء میں دیئے گئے اپنے ہی فیصلے کو پلٹ دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر کوئی ادارہ قانون کے تحت بنا ہے، تب بھی وہ اقلیتی ادارہ ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ اب تین ججوں کا بنچ اس فیصلے کی بنیاد پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت کا فیصلہ کرے گا۔

سپریم کورٹ نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کسی بھی ادارے کو اقلیتی ادارے کا درجہ کیسے دیا جا سکتا ہے۔ کورٹ نے کہا کہ دفعہ 30 کے تحت لسانی، ثقافتی یا مذہبی اقلیتیں اپنے ادارے بنا سکتی ہیں، لیکن یہ حکومتی قوانین سے پوری طرح پر الگ نہیں ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چاہے کوئی تعلیمی ادارہ آئین کے نفاذ سے پہلے قائم ہو یا بعد میں، اس سے اس کا درجہ نہیں بدل جائے گا۔ ادارے کے قیام اور اس کے سرکاری مشینری کا حصہ بننے میں فرق ہے۔ دفعہ 30 (1) کا مقصد یہ ہے کہ اقلیتوں کے ذریعہ بنائے گئے ادارے کو صرف ان کے ذریعہ چلایا جائے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر فیصلہ سناتے ہوئے سی جے آئی نے کہا کہ دفعہ 30 کے تحت اقلیتی ادارے بنائے جا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ اقلیتی برادری کی جانب سے بنا ادارہ بھی اس کی طرف سے نہ چلایا جائے۔ اسے کوئی اور چلائے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عدالت کو یہ دیکھنا پڑے گا کہ جب ادارہ بنایا گیا تو فنڈز اور زمین کا بندوبست کس نے کیا تھا۔ ہم عزیز باشا فیصلے کو کالعدم قرار دے رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ عزیز باشا بنام یونین آف انڈیا کے معاملے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ میں پچھلی سماعت کے دوران بھارت کی مرکزی حکومت نے دلیل دی تھی کہ اے ایم یو کو اقلیتی درجے میں رکھنا درست نہیں ہے۔ بنچ نے گزشتہ سماعت میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلہ پر جماعت اسلامی ہند کے تاثرات
جماعت اسلامی ہند کے صدر سید سعادت اللہ حسینی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی درجہ کو برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ آف انڈیا کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ ایس عزیز باشا بمقابلہ یونین آف انڈیا میں 1967ء کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے، جس میں کہا گیا تھا کہ ایک قانون کے تحت شامل ادارہ اقلیتی ادارہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ جماعت نے کہا کہ عدالت عظمٰی نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے، جو اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے کا پابند ہے۔ جماعت اسلامی نے کہا کہ اسی طرح کے اداروں کی جنہیں قانونی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا اور ان کے تعلیمی اور ثقافتی حقوق میں شدید کمی کا باعث بن سکتا تھا، جیسا کہ آئین میں تسلیم کیا گیا ہے۔ سید سعادت اللہ نے کہا کہ اس سے اس ملک میں تمام مذہبی، لسانی اور ثقافتی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور تحفظ کا باعث بنے گا۔

جیسا کہ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے اس معاملے کو باقاعدہ بنچ کے سپرد کر دیا ہے کہ یہ جانچنے کے لئے کہ یونیورسٹی کس نے قائم کی اور اس کے پیچھے دماغ کون تھا، ہمیں یقین ہے کہ اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کو عدالت کے ذریعے محفوظ رکھا جانا چاہیئے۔ جماعت اسلامی ہند کے صدر نے کہا کہ قائم اور بلا مقابلہ تاریخ کہ اے ایم یو کی بنیاد سر سید احمد خان نے اقلیتی مسلم کمیونٹی کی تعلیمی ترقی کے لئے رکھی تھی۔ سید سعادت اللہ نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ حکومتیں اور مقامی حکام یہ سمجھیں گے کہ اقلیتیں، خاص طور پر مسلمان، ہندوستان کا ایک لازمی حصہ ہیں اور تعلیم، معاش، تحفظ اور سلامتی کے حوالے سے ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جانا چاہیئے۔ قوم کے لئے مثبت طور پر اور ان کے تعلیمی ادارے بلا تفریق ذات پات اور مذہب کے طلباء کی خدمت کرتے ہیں، تاکہ اقلیتوں کو اپنے مسائل کے حل کے لئے عدالتوں سے رجوع کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔

اقلیتوں کو اس کے ترقیاتی ایجنڈے میں شامل کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ ان کے اداروں کی حفاظت کرنا اور انہیں ضروری رعایتیں دینا، مثبت اقدامات کرنا اور ان کی گرتی ہوئی سماجی و اقتصادی حیثیت کو بہتر بنانے کے لئے ایسے اقدامات کرنا شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتیں کسی بھی جمہوری ملک کی خصوصیت ہوتی ہیں۔ اس دوران مسلم رہنماؤں اور دینی اسکالروں نے اترپردیش مدارس کے خلاف ماضی میں اترپردیش ہائی کورٹ کے دیئے گئے فیصلے کو کلی طور پر مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے عدیم النظیر فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ سابق مرکزی وزیر اور انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر (آئی آئی سی سی) کے صدر سلمان خورشید، آئی آئی سی سی کے سابق ٹریزرار و معروف کارپوریٹ احمد رضا، ڈاکٹر سید فاروق (ہمالیہ ڈرگ)، ڈاکٹر محمد فاروق، (آرتھو)، ڈاکٹر انوار الہدیٰ، سابق سکریٹری حکومت ہند، ڈاکٹر پروفیسر معظم احمد، سابق جوائنٹ سکریٹری حکومت ہند، سید رضوان احمد، سابق ڈی جی پی اترپردیش، ریاض فاطمہ رضوی۔

معروف اسکالر اور ملی قائد کلیم الحفیظ، ورلڈ صوفی مشن کے صدر معمر صحافی قومی اور ملی قائد شاہ اشتیاق ایوبی، سماجی خدمت گار ساجدہ بیگ، مرزا گلناز، نوشابہ بیگم، ملی محرک خورشید عثمانی، صحافی احمد جاوید، صحافی علی عادل خان، صحافی جاوید رحمانی وغیرہ نے اپنی مشترکہ پریس ریلیز میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور مدارس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا نہایت کشادہ دلی سے خیرمقدم کیا ہے۔ مذکورہ شخصیات نے کہا کہ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں، مدارس، مسلمان اور مسلم تنظیموں کے خلاف گذشتہ 10 برسوں سے خصوصی طور پر جاری نفرتی ریشہ دوانیاں جگ ظاہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فسطائی عناصر کے ذریعہ یا نفرتی فرقہ واریت کی بنیاد پر 1925ء میں قائم تنظیم یا اس کے زیر سرپرستی برسر اقتدار سیاسی پارٹی کے پاس مسلم مخالف نفرت و فسطائیت کے علاوہ کوئی دوسری جمع پونجی بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر فسطائی عناصر کے ہاتھوں سے مسلم منافرت کا حربہ ضبط کر لیا جائے تو ان کے پاس خود کو زندہ رکھنے کے لئے ڈھونڈے سے بھی کوئی سنجیونی بوٹی نہیں ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے عزیز ترین سیکولر ملک بھارت کے دو اہم ستون ہیں، ایک ہمارا باعث صد افتخار آئین ہے اور دوسرا ہمارے ملک کا سیکولر کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتیں جب تک آئین کی بالادستی کے زیر اثر اور انصاف و قانون کے مطلوبہ غیر جانبدار تقاضوں پر عمل پیرا ہوکر انصاف کا حق ادا کرتی رہیں گی، اس ملک کی مسلم و دیگر اقلیتیں اور اقلیتی اداروں کے وجود کو کوئی خطرہ نہیں پہنچ سکتا۔ تمام مذکورہ بالا مسلم اسکالروں نے یک زبان ہوکر فیصلے پر اظہار مسرت کے ساتھ تبصرہ کیا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک ایسا پائیدار اور تاریخ ساز فیصلہ ہے، جس سے مسلم مدارس اور مسلم اقلیت کی لاچارگی کو مدت دراز تک تقویت فراہمی کے علاوہ اداروں کی آئینی سیرابی کا سلسلہ برقرار رہے گا۔ سابق مرکزی وزیر انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے نو منتخب صدر سلمان خورشید نے خصوصی طور پر نئی دہلی میں میڈیا کو مخاطب کرکے کہا کہ سپریم کورٹ کے ذریعے یوپی مدارس کے حق میں مدارس کی سالمیت کو دائمی تحفظ فراہم کرنے سے متعلق صادر کیا گیا یہ فیصلہ باعث قابل تحسین ہونے کے علاوہ عدالت عظمیٰ کے سبھی منصف مزاج ججز حضرات کے لئے لائق مبارکباد ہے۔ یہ فیصلہ جہاں ایک طرف مدارس کی بنیاد کے لئے میل کا پتھر ہے تو دوسری طرف فسطائی عناصر کے لئے ضرب کاری بھی ہے۔

منصفانہ کردار و عمل ہی اقلیتوں اور اقلیتی اداروں کا امین و ضامن
ورلڈ صوفی مشن کے صدر اور معمر صحافی شاہ اشتیاق ایوبی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت، قانون اور انصاف کا مبنی بر جمہوری اور آئین کی بالادستی قائم رکھنے والا منصفانہ کردار و عمل ہی اقلیتوں اور اقلیتی اداروں کا امین و ضامن ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک عدالتوں میں آئین کا پاس و لحاظ برقرار رہے گا، تب تک فسطائی عناصر کے منافرتی مشن پر عدالتوں سے ضرب کاری کا لگنا جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ملک کے قانون و انصاف اور عدالتوں کے سیکولر کردار پر بھروسے کے تحت انصاف حاصل ہوا ہے، مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ یمالیہ ڈرگ کے سرپرست ڈاکٹر سید فاروق نے کہا کہ ہمارے ملک کی عدالتیں ہماری محافظ ہیں، جب تک اس ملک پر عدالت عظمیٰ کے انصاف بردار منصفوں کا سایہ قائم ہے، ہمیں قطعی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ معروف آرتھو پیڈ معالج ڈاکٹر محمد فاروق نے کہا کہ آج کا سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف کی تاریخ کے صفحات پر ایک نئی عبارت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ کا شکرگزار ہونا چاہیئے، جب تک قانون و انصاف کا راج قائم رہے گا، فسطائی عفریت شرمسار اور ناکام ہوتی رہے گی۔
خبر کا کوڈ : 1171986
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش