تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
جیسا کہ ہم نے گذشتہ آرٹیکل میں عرض کیا تھا کہ سعودی عرب کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف فیاض بن حامد الرویلی نے ایک اعلیٰ فوجی وفد کے ہمراہ تہران کا دورہ کیا اور ایران کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل محمد باقری سے ملاقات اور گفتگو کی۔ اس ملاقات کی خبرین بدستور علاقائی اور عالمی خبروں کا موضوع ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات مارچ 2023ء سے ایک نئے دور میں داخل ہوئے اور دونوں ممالک نے سات سال کی کشیدگی کے بعد دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے۔ تہران اور ریاض کے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کی نشانیوں میں سے ایک وہ سفارتی دورے ہیں، جو فریقین کے درمیان کیے گئے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے سیاسی حکام نے اس دوران ریاض اور تہران کا سفر کیا ہے اور علاقائی پیش رفتوں اور دوطرفہ تعلقات پر ملاقات اور تبادلہ خیال کیا ہے۔
گذشتہ دو ماہ میں دونوں ممالک کے حکام نے کئی سفارتی دورے کیے ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے ایک ماہ قبل اکتوبر کے اوائل میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کا دورہ کیا تھا اور اس ملک کے وزیر خارجہ سے ملاقات کے علاوہ انہوں نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی تھی۔ سفیر سطح پر بھی دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ کے قانونی اور بین الاقوامی امور میں نائب کاظم غریب آبادی نے بھی گذشتہ دنوں سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس کے علاوہ محمد رضا عارف نائب صدر اول اور اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کے لئے سعودی عرب کا سفر کیا۔
محمد رضا عارف نائب صدر اول اور اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کے دورے سے پہلے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں سعودی عرب کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اور علاقائی تعاون کو وسعت دینے کی ایران کی خواہش پر زور دیا۔ سعودی ولی عہد نے اس گفتگو میں کہا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات ایک تاریخی موڑ پر ہیں اور مجھے امید ہے کہ یہ تمام شعبوں میں اعلیٰ ترین سطح پر پہنچ جائیں گے۔ ان تمام دوروں کے تناظر میں سعودی عرب کی مسلح افواج کے سربراہ کا دورہ تہران موجودہ مرحلے میں کئی گنا اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے، کیونکہ سیاسی اور سفارتی ملاقاتوں کے برعکس دونوں ممالک کے فوجی حکام کے دورے بہت کم ہوئے ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات صحیح راستے پر ہیں اور خوش قسمتی سے دوسرے ممالک کے واقعات بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں موجودہ عدم تحفظ کے واقعات سے یہ تعلقات متاثر نہیں ہوئے۔ ایران اور سعودی عرب کے فوجی حکام کی یہ ملاقات "ڈونلڈ ٹرمپ" کے امریکی صدارتی انتخابات جیت کر دوبارہ وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے میں کامیاب ہونے کے چند روز بعد ہوئی ہے۔ یاد رہے ٹرمپ کی صدارت کے پہلے دور میں تہران اور ریاض کے تعلقات کشیدہ تھے۔ ذرائع ابلاغ نے ایران اور سعودی عرب کی مسلح افواج کے سربراہان کے درمیان ہونے والی ملاقات کی زیادہ تفصیلات شائع نہیں کی ہیں، لیکن بعض ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ میجر جنرل محمد باقری نے اس ملاقات میں اعلان کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعلقات میں فروغ آسکتا ہے اور مشترکہ بحری مشقیں بھی انجام دی جاسکتی ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ سفارتی ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ سعودی اور ایرانی حکام کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک نے دوطرفہ تعلقات کی گہرائی کو اپنی پہلی ترجیح قراردے رکھا ہے۔ جرمنی کی ڈوئچے ویلے کی ایک ویب سائٹ نے خطے کے ان دو اہم ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے عمل کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کے بعد، جو 202ء میں چین کی ثالثی میں کیا گیا تھا، دونوں علاقائی حریف اب اپنے تعلقات کو گہرا کرنا چاہتے ہیں۔ علاقائی امور کے ماہر تجریہ نگاروں کے مطابق ایران اور عرب ممالک کے درمیان سکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانا، کشیدگی کو کم کرنے اور علاقائی استحکام کو بڑھانے کی جانب ایک قدم ہے۔ امریکہ نے گذشتہ چند دہائیوں میں خلیج فارس میں اپنی طاقتور موجودگی سے اس خطے کے استحکام اور سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا تھا، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ عرب رہنماء اس بات پر یقین کرنے لگے ہیں کہ انہیں خطے میں امریکی موجودگی سے صرف ایک چیز حاصل ہوئی ہے، وہ ہے عدم استحکام اور عدم تحفظ۔
دوسری طرف ایران نے نہ صرف خطے میں بیرونی طاقتوں کی موجودگی کو علاقائی بحران کے بڑھنے کا سبب قرار دیا ہے بلکہ خطے کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے خلیج فارس کے ممالک کو اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ خلیج فارس کی عرب حکومتیں امریکہ کے کردار کو اپنی حکومتوں کی بقا کے لیے اہم سمجھتی تھیں۔ ایران نے ہمیشہ اپنے پڑوسیوں کی طرف سے علاقائی سلامتی کو سنبھالنے کا خیرمقدم کیا ہے اور وہ تہران اور ریاض کے درمیان سیاسی ہم آہنگی کے موقع کو استعمال کرنے اور فوجی تعاون کے لیے ایک پل بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ خلیج فارس کی دو بڑی طاقتوں کے طور پر ایران اور سعودی عرب کے پاس عسکری میدان میں بہت زیادہ صلاحیتیں ہیں، جو اس میدان میں تعاون کرکے گذشتہ دہائی میں پیدا ہونے والے بہت سے سکیورٹی مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ ایران میزائلوں اور ڈرونز کی تیاری میں دنیا کی سرفہرست طاقتوں میں سے ایک ہے اور یہ کامیابیاں عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کو منتقل کرسکتا ہے۔
حالیہ برسوں میں سعودی عرب اور خلیج فارس کے دوسرے شیوخ نے ترکی اور حتیٰ کہ صیہونی حکومت سے ڈرون خریدنے کے معاہدے کیے ہیں اور اگر عرب راضی ہوں تو ایران عربوں کو یہ ہتھیار کم قیمت پر فراہم کرسکتا ہے۔ شام اور عراق میں دہشت گردوں کے ساتھ جنگ میں ایران نے اچھی طرح دکھایا ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک کی مدد کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا اور وہ اپنے تجربات کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے بھی تیار رہتا ہے۔ ایران نے ہمیشہ عربوں کے ساتھ کشیدگی میں کمی کی طرف قدم اٹھایا ہے اور اس میدان میں اپنی نیک نیتی کا ثبوت بھی دیا ہے۔ بہرحال اب سب کچھ عرب رہنماؤں پر منحصر ہے کہ وہ اس میدان میں فیصلے کریں، تاکہ خلیج فارس میں ایک دوسرے کی مدد سے امن و سلامتی بحال ہوسکے۔ واضح رہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں فروغ مسئلہ فلسطین سمیت علاقے کے کئی بحرانوں کے حل کے لیے بہت اہم ہوسکتا ہے۔